معیشت کی روشن تصویر اور بدحال عوام

705

عمرانی حکومت کم از کم اتنا تو کرے کہ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنا بند کردے۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کے وزراء اپنی تقریروں میں معیشت کی بڑی خوش کن تصویر دکھانے میں لگے ہوئے ہیں لیکن زمینی حقائق سے بے خبر ہیں یا دانستہ آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ گزشتہ 14 ماہ میں ضروریات زندگی کی کون سی شے ہے جس کی قیمت میں کئی گنا اضافہ نہین ہوا۔ پٹرول، گیس، بجلی کی قیمت میں ہر ماہ اضافہ ہو رہا ہے اور تازہ ترین اضافہ گزشتہ منگل کو ہوا ہے۔ بجلی کی قیمت میں 2.37 روپے فی یونٹ مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ اضافہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا گیا ہے۔ اس سے عوام پر فوری طور پر 33 ارب روپے کا بوجھ پڑے گا۔ صرف بجلی کی قیمت میں اضافے سے متعدد اشیاء مہنگی ہو جائیں گی۔ جو کارخانے بجلی سے چلتے ہیں وہ اپنا بوجھ عوام پر منتقل کریں گے اور صنعتی اشیا کی قیمت مزید چڑھ جائے گی۔ لیکن حکمرانوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا جن کے بجلی کا بل عوام کی جیب سے ادا کیا جاتا ہے۔ عوام کو نچوڑنے کے لیے حکمرانوں کے پاس بجلی، گیس، پٹرول فوری ذرائع ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ حکمران رات کو سونے سے پہلے یہ عزم کر کے سوتے ہیں کہ صبح اٹھتے ہی فلاں فلاں شے کی قیمت بڑھائی جائے گی۔ حکمران طبقے کو کیا معلوم کہ عوام کس حال میں ہیں۔ عمران خان اور ان کے وزرا میں سے کون ضروریات زندگی خریدنے کے لیے بازار کا رخ کرتا ہے اور اگر کرتا بھی ہے تو کس بڑے شاپنگ سینٹر میں جاتا ہے اور کسی بھائو، تائو کے بغیر جو قیمت طلب کی جائے، بخوشی ادا کر دیتا ہے۔ ہمارے وزرا اور ان کے رنگ برنگے ترجمان یا خاتون اول کبھی سبزی مندی کا رخ کریں اور معلوم کریں کہ سبزیاں کس بھائو مل رہی ہیں۔ آلو، پیاز، ٹماٹر ہی کیا ہری مرچ سمیت کسی بھی سبزی کا بھائو معلوم کریں۔ کون سی چیز ایسی ہے جو عام آدمی کی دست رس میں ہو۔ پہلے غریب آدمی دال روٹی سے گزارا کر لیتا تھا اب دالوں کی قیمت بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور حکومت کی نا اہلی اور بدانتظامی سے آٹا مہنگا ہوگیا، روٹی کی قیمت ڈیڑھ گناہ بڑھ گئی… کیا کھائے، کیا نہ کھائے۔ عمران خان کے پاس ایک ہی حل ہے کہ لنگر خانے کھولے جائیں، عوام کو بھکاری بنایا جائے۔ عوام بری طرح پس گئے ہیں اور حکمران کہتے ہیں کہ سب اچھا ہے، انہیں ہری ہری سوجھ رہی ہے۔ عمران خان فرماتے ہیں کہ کرپٹ مافیا افراتفری پھیلانا چاہتا ہے لیکن معاشی افراتفری کون پھیلا رہا ہے، کیا یہ بھی کرپٹ مافیا نہیں ہے؟ ایک نووارد ماہر اقتصادیات اور وزیر برائے اقتصادی امور حماد اظہرنے گزشتہ منگل کو اپنی حکومت کے وہ کارنامے بیان کیے ہیں جو کسی کو نظر نہیں آرہے۔ کہتے ہیں کہ تحریک انصاف حکومت کی بہتر اقتصادی پالیسیوں کے ثمرات ملنے شروع ہو گئے ہیں۔ مگر کس کو؟ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ ہے کہ اسے 175 ارب کا خسارہ ہوا ہے جب کہ 2018ء میں وہ منافع میں تھا۔ عمران حکومت نے چار ماہ میں 318 ارب روپے قرضہ لے لیا جو عوام ہی سے وصول کیا جائے گا۔ ویسے سب اچھا ہے!