ایک مرتبہ پھر جرائم کی سرپرستی میں جرائم کی بیخ کنی کرنے والے ادارے پولیس کے افسران اور اہلکار ملوث نکلے اور انہیں معطل کر دیا گیا۔ اس سے قبل بھی کراچی کے مختلف اضلاع میں پولیس اہلکار اور افسران ملوث پائے گئے تھے۔ یہ تو درست قدم ہے کہ پولیس کے محکمے میں ایسے بدعنوان اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف نہ صرف کارروائی ہو رہی ہے بلکہ ان کو قانونی عمل سے بھی گزارا جا رہا ہے۔ خبر تو مختصر ہے لیکن یہ علامت ہے اس امر کی کہ سندھ پولیس میں بھی بڑے پیمانے پر گڑ بڑ ہے۔ سندھ پولیس نے یہ کارروائی تو ضلع کورنگی میں کی ہے جس میں ایس ایچ او، ایس آئی اور دیگر اہلکار شامل ہیں جبکہ چند روز قبل کھوکھراپار تھانے میں جعلی پولیس پارٹی بھی پکڑی گئی تھی۔ یہ جعلی پولیس پارٹی تو پکڑی گئی اور اسے پولیس ہی نے پکڑا، لیکن عوام سے گلی محلوں اور سڑکوں پر کھلے عام بھتے وصول کرنے والے پولیس اہلکار تو اصلی ہی ہوتے ہیں ان کے خلاف کون کارروائی کرے گا۔ کراچی پولیس کے سربراہ نے بدعنوان افسران اور اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی اچھی روایت قائم کی ہے لیکن سندھ پولیس کے پورے نظام کا ازسر نو جائزہ لینا ہوگا کہ ایسے لوگ پولیس میں کہاں سے آرہے ہیں جو عوام کے تحفظ کے بجائے منظم جرائم کے سرپرست بن جائیں۔ یہ محض کوئی چھوٹی سے خبریا معمولی بات نہیں بلکہ نہایت قابل غور اور توجہ طلب مسئلہ ہے۔ پولیس کا محکمہ پہلے بھی بہت بدنام ہے۔ سانحہ ساہیوال، کراچی میں ماورائے عدالت قتل اس کے علاوہ ہیں۔ پولیس کی بھرتی کے نظام کا بھی جائزہ لینا ہوگا۔ ایک سوال یہ ہے کہ کیا جرائم کی سرپرستی کرنے والے ان ایس ایچ اوز کی سطح کے لوگ ہوتے ہیں۔ یہ کام تو اوپر بلکہ بہت اوپر کی سطح پر ہوتا ہے۔ نیچے والے تو محض آلۂ کار ہوتے ہیں۔ اگر صرف ایک ضلع میں یہ صورتحال ہے تو باقی ضلعوں میں اور شہر کی سطح پر پولیس کا کیا حال ہوگا۔ سندھ حکومت اور پولیس کے ارباب اختیار کو اس جانب خصوصی توجہ دینی ہوگی ورنہ پولیس کے ادارے پر رہا سہا اعتبار بھی اٹھ جائے گا۔