عمران حکومت کے فیصلے مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضے کو مستحکم کرنے کا سبب بن رہے ہیں یا یہ کہ اِس طرح کے فیصلوں سے مقبوضہ کشمیر اور آزاد ہو کر پاکستان بن جائے گا، عمران خان محمد بن قاسم اور ٹیپو سلطان کے نقش قدم پر ہیں یا میر صادق اور جنرل نیازی کی تاریخ دہرا رہے ہیں، اِس کا سردست فیصلہ کرنا مناسب نہ ہوگا بلکہ مورخ کے قلم کا انتظار کرنا ہوگا کہ جب وہ ’’سقوط سری نگر‘‘ کا آخری باب بھی مکمل کرلے گا تو تب جا کر یہ حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی کہ گلاب سنگھ سے عمران خان تک اور سید ابوالاعلیٰ مودودی سے سید علی گیلانی تک کون کشمیریوں کا خیر خواہ اور دوست تھا؟۔
سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی جماعت، جماعت اسلامی کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ اِسی نام اور کام (قرآن و سنت کی بالادستی) کے ساتھ پاکستان، آزاد کشمیر، مقبوضہ کشمیر اور بھارت کے اندر موجود ہے۔ لہٰذا حکومت کے بعد جماعت اسلامی ہی کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ’’مسئلہ کشمیر‘‘ کو حل کرانے کے لیے زیادہ سے زیادہ توجہ مرکوز رکھے کیوں کہ جماعت اسلامی اپنے کارکنوں، لٹریچر اور قیادت کے ذریعے دیگر تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کے مقابلے میں ’’مسئلہ کشمیر‘‘ کے حوالے سے زیادہ باخبر اور بااثر ہے۔ بالخصوص بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے 5 اگست 2019ء کے فیصلے نے کہ جس میں بھارتی آئین میں ترمیم کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے بھارت کا حصہ قرار دے دیا گیا ہے کے بعد صورتِ حال یکسر تبدیل ہوچکی ہے۔ 72 برس تک یہ ’’مسئلہ کشمیر‘‘ تھا کہ جس کے لیے اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ قراردادوں پر عمل درآمد کا مطالبہ، عالمی برادری سے اپیلیں اور بھارت کے ساتھ مذاکرات سمیت سفارتی محاذوں پر بھارت کے ساتھ جنگ اور مقدمہ لڑنا ٹھیک تھا مگر 5 اگست کے فیصلے کے بعد ’’مقبوضہ کشمیر‘‘ جو اب بھارت کا حصہ بن چکا ہے اُسے آزاد کرانے کے لیے بھرپور طاقت کا استعمال کرنا ہوگا، کیوں کہ بھارت اب آسانی سے قبضہ نہیں چھوڑے گا، عالمی سامراجی قوتیں بھی بھارتی قبضے کو تقویت دیں گی۔ ’’مقبوضہ کشمیر‘‘ کو آزاد کرانے کے لیے جنگ اور جہاد کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں بچا۔
مقبوضہ وادی کے لوگ یہ طاقت نہیں رکھتے کہ وہ غلامی کی زنجیروں کو توڑ سکیں، یہ طاقت صرف فوج کے پاس ہے، فوج ہی کو آگے بڑھ کر پاکستان کی ’’شہ رگ‘‘ کو بچانے اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو بھارتی غلامی سے نجات دلانے کے لیے اپنا فرض اور ذمے داری ادا کرنی چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان کا یکطرفہ جذبہ خیرسگالی ’’گیدڑ کی سو سالہ زندگی‘‘ کے مترادف ہے۔ لہٰذا اِن سے یا اِن کی کابینہ سے قطعاً یہ اُمید نہیں کہ یہ ’’مقبوضہ کشمیر‘‘ کو آزاد کرانے کے لیے بھارت کے ساتھ جنگ کرنے کا کوئی فیصلہ کرپائیں گے۔ اِسی طرح سے صدر مملکت عارف علوی صاحب جو مسلح افواج کے سپریم کمانڈر بھی ہیں اُن میں بھی اتنی جرأت اور ہمت نظر نہیں آرہی کہ وہ فوجوں کو ’’کنٹرول لائن‘‘ عبور کرنے کا حکم دیں گے۔ اِس طرح کی صورتِ حال میں جنرل قمر باجوہ صاحب کے لیے بھی یہی راستہ باقی بچ جاتا ہے کہ وہ ’’آئی ایس پی آر‘‘ کے ذریعے اپنی جنگ جاری رکھیں، یہاں تک کہ ’’مقبوضہ کشمیر‘‘ قبرستان بن جائے اور پھر وہاں سے فوجی مدد مانگنے کی کوئی آواز نہ آئے۔
’’مقبوضہ کشمیر‘‘ کے مسلمانوں کی جان، آبرو اور عقیدے کو جس طرح کے خطرات لاحق ہیں اُن کے ردعمل میں حکومتی اقدامات انتہائی بزدلانہ اور شرمناک ہیں جنہیں دیکھ کر نہیں لگتا کہ ’’مقبوضہ کشمیر‘‘ کبھی آزاد ہوپائے گا، تاہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ حکومت پاکستان کے بغیر کوئی دوسرا بھی نہیں جو مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے کوئی کردار ادا نہ کرسکے۔ پاکستان کے 22 کروڑ غیرت مند مسلمان اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہیں اور انہیں ہر حال میں آزاد کرانے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں، جب کہ جماعت اسلامی اِس حوالے سے پورے پاکستان کے عوام کے جذبات، احساسات اور مطالبات کی نہ صرف بھرپور نمائندگی کررہی ہے بلکہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کی توقعات پر بھی پورا اُترنے کے لیے چوکس اور متوجہ ہے۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان محترم سراج الحق نے مقبوضہ کشمیر کی موجودہ تشویشناک صورت حال پر سخت ردعمل دیتے ہوئے پورے ملک کے اندر جماعت کو مقبوضہ کشمیر کے مسلمان بھائیوں کی مدد کے لیے انتہائی متحرک کردیا ہے۔ ہر روز کے بیانات، اجتماعات اور ریلیوں کے ذریعے حکومت پاکستان سمیت عالمی برادری کو متوجہ کیا جارہا ہے کہ وہ غلطی پر غلطی نہ کرے اور معاملے کی سنگینی کو سمجھے۔ سراج الحق صاحب مقبوضہ کشمیر کا مقدمہ عوام میں لے جا کر جس طرح کے نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ انتہائی مثبت اور باعث تقویت ہوں گے۔ کیوں کہ مقبوضہ کشمیر کا ’’جہاد‘‘ ایک نئے انداز سے شروع ہونے والا ہے جس میں ’’مجاہدین‘‘ سے زیادہ عوام کی شرکت ہوگی۔ تاہم کشمیری بھائیوں کا درد رکھنے کے باوجود بعض دانستہ یا نادانستہ غلطیاں بھی ہورہی ہیں جنہیں درست کرنا ضروری ہے۔ حالات اور مقبوضہ وادی میں رونما ہونے والے واقعات بتارہے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے جماعت اسلامی ہی کو ’’جہاد‘‘ کرنا ہوگا۔ جنگ اور جہاد میں غلطیوں کی گنجائش بہت کم ہوتی ہے۔ اس حوالے سے پہلی گزارش یہ ہے کہ کراچی اور لاہور میں جو کامیاب ریلیاں نکالی گئی تھیں ان کو ’’کشمیر ریلی‘‘ کا نام دیا گیا تھا جو نامکمل نام تھا تاہم بعد میں اس غلطی کو درست کرلیا گیا۔ 25 اکتوبر کو جیکب آباد میں نکالی جانے والی ریلی کو ’’جہاد کشمیر مارچ‘‘ کا نام دیا گیا۔ یہ ایک مکمل اور متوجہ کرنے والا نام ہے جو اپنے ہدف کی واضح نشاندہی کررہا ہے۔ یعنی ’’مسئلہ کشمیر‘‘ کا حل جہاد اور جہاد… یہی وہ بات تھی جو جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی بھی بار بار فرمایا کرتے تھے، جب کہ قرآن و سنت میں مظلوم کی مدد کے لیے جو اصطلاح یا لفظ استعمال کیا گیا ہے وہ بھی جہاد اور صرف جہاد ہے۔ جہاد اللہ اور اُس کے رسولؐ کی طرف سے فرض اور مظلوم کا قرض ہے جس کو ہر صورت ادا ہونا چاہیے۔ جہاد قلم کی نوک سے لے کر سر قلم ہونے تک جاری رہتا ہے۔ لہٰذا مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورت حال کو دیکھتے ہوئے عوام کے جذبات کی درست ترجمانی کرنے اور مسئلہ کشمیر کا حقیقی حل بتانے کے لیے ضروری ہے کہ جماعت اسلامی کے تحت کشمیر کے حوالے سے ہونے والے تمام مظاہروں اور ریلیوں کو ایک ہی نام ’’جہاد کشمیر مارچ‘‘ دے دیا جائے۔ یہ عنوان اور نام دشمن سے لے کر دوستوں تک کو ’’مسئلہ کشمیر‘‘ کے حل کی جانب اُٹھنے والے ممکنہ اقدامات کی طرف متوجہ کرے گا کہ اگر تم پُرامن طریقے سے ’’مسئلہ کشمیر‘‘ حل کرنے میں مدد نہیں دو گے یا آمادہ نہیں ہوگے تو پھر ہر جگہ اور محاذ پر ’’جہاد‘‘ تمہارا استقبال اور مقابلہ کرے گا۔ کوئی اِس غلط فہمی میں نہ رہے کہ مقبوضہ کشمیر ہمیشہ غلام اور جیل بنارہے گا۔
جیکب آباد کا ’’جہاد کشمیر مارچ‘‘ جس میں مرد و خواتین کی شرکت یادگار اور مثالی تھی، اِس کے اختتام کے مقام پر ایک جلسہ کا انعقاد کیا گیا، اسٹیج پر موجود رہنمائوں کو اجرک اور ٹوپیاں پہنائی گئیں، جب کہ ماحول اِس بات کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ اِس طرح سے کیا جائے۔ لوگ یہ سوال کررہے تھے کہ کون سی کامیابی ملی ہے کہ اس طرح کے تحفے اور تحائف دیے جارہے ہیں، مہمان نوازی سندھ کی روایت ضرور ہے تاہم ’’اعلان جہاد‘‘ کے بعد میزبانی بھی قربانی میں تبدیل ہوجاتی ہے، ہر موضوع اور عبادت کے اپنے اپنے تقاضے ہیں۔ ’’جہاد‘‘ بھی ایک عبادت ہے جس کا تقاضا یہ تھا کہ جلسہ گاہ کے صاحب صدر کے ہاتھ میں تلوار تھمائی جاتی اور وہ تلوار لہرا کر ’’جہاد کشمیر مارچ‘‘ کے شرکا سے خطاب کرتا۔ علاوہ ازیں دُکھ دینے والی بات یہ بھی ہے کہ جلسہ اور ریلی کے اختتام کے بعد مٹھائی کھلائی اور شوق سے تصویریں بنوائیں۔ جب کسی نے کسی سے پوچھا تو جواب دیا گیا کہ کامیاب ریلی کی خوشی میں مٹھائی کھلائی جارہی ہے ممکن ہے کہ کوئی سادہ آدمی اس جواب سے مطمئن ہوجائے، تاہم کوئی بھی سنجیدہ شخص اتفاق نہیں کرے گا۔ جماعت کی مرکزی قیادت کو چاہیے کہ وہ ’’جہاد کشمیر مارچ‘‘ جس کا پورے ملک میں آغاز ہوچکا ہے اُس کے تمام پروگراموں کو مانیٹر کرتے ہوئے اِس بات کو یقینی بنائے کہ کہیں کوئی ایسی غلطی نہ ہونے پائے جسے عوام کے اندر ناپسند کیا جائے یا یہ کہ اُس پر سوال اُٹھائے جائیں۔
ہم آخر میں نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ، اسد اللہ بھٹو، امیر صوبہ محمد حسین محنتی اور سیکرٹری اطلاعات سندھ مجاہد چنہ کے جیکب آباد تشریف آوری پر انتہائی شکر گزار ہیں۔ علاوہ ازیں جیکب آباد جماعت کی قیادت، کارکن، منتظمین اور ریلی کے تمام شرکا کے لیے بھی اللہ رب العزت سے بدستِ دعائیں کہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے کی جانے والی جدوجہد اور جہاد میں ان کی شرکت اور حصے کو قبول فرمائے۔ آمین ثم آمین