المناک سانحہ

595

جمعرات کو تیزگام ایکسپریس میں پیش آنے والا حادثہ انتہائی افسوسناک ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے 74 افراد زندہ جل گئے اور متعدد زخمی ہیں۔ یہ حادثہ صبح ساڑھے 6 بجے لیاقت پور کے قریب پیش آیا۔ پاکستان میں ٹرینوں کے حادثات کی طویل تاریخ ہے اور اب ان میں ایک اور حادثے کا ضافہ ہوگیا۔ کراچی سے راولپنڈی جانے والی تیزگام میں زیادہ تر مسافروں کا تعلق تبلیغی جماعت سے تھا جو رائے ونڈ جا رہے تھے۔ کسی قسم کی تحقیق سے پہلے ہی وزیر ریلوے شیخ رشید اور ریل کے عملے نے فیصلہ دے دیا کہ حادثہ گیس سلینڈر پھٹنے سے پیش آیا، مسافر گیس سلینڈر پر چائے بنا رہے تھے۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ مسافروں کو ٹرین میں گیس سلینڈر لے جانے ہی کیوں دیا گیا۔ بچ جانے والے مسافروں کا کہنا ہے کہ سلینڈر سے گیس نکال دی گئی تھی۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ آگ کا آغاز ائرکنڈیشنڈ سلیپر سے ہوا جب کہ متاثرہ مسافر اکنامی کلاس یا نچلے درجے میں تھے۔ آگ کا آغاز بھی وہیں سے ہونا چاہیے تھا۔ مسافروں کا کہنا ہے کہ زنجیر کھینچ کر ٹرین روکنے کی کوشش کی لیکن کوئی زنجیر کام نہیں کر رہی تھی چنانچہ ٹرین چلتی رہی اور آگ پھیلتی گئی۔ ڈرائیور کو بھی پتا نہیں چلا کہ پیچھے کیسی آگ لگی ہوئی ہے۔ کیا زنجیروں کا کام نہ کرنا بھی سلینڈر کی وجہ سے تھا؟ وزیر ریلوے شیخ رشید فرماتے ہیں کہ ان کے دور وزارت میں ٹرینوں کے حادثات بہت کم ہوئے ہیں۔ ان کے دعوئوں میں سنجیدگی کا عنصر نہیں ہوتا ورنہ آئے دن تو حادثے ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں ٹرین کے حادثے میں صرف ایک وزیر محمد خان جونیجو نے رضاکارانہ طور پر استعفا دیا جو بعد میں وزیراعظم بنے۔ شیخ رشید سے تو توقع نہیں کہ وہ استعفا دیں۔ ذمے داری مسافروں پر ڈال کر الگ ہو گئے ہیں۔ دوسری طرف بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ آگ شارٹ سرکٹ سے لگی ہے۔ یہ بات ریلوے کے وزیر یا دیگر ذمے داران ہر گز تسلیم نہیں کریں گے۔ 74 افراد کی ہلاکت معمولی بات نہیں ہے۔ کتنے ہی گھرانوں کے پیارے جل کر راکھ ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے اور انہیں شہادت کا درجہ عنایت کرے۔ حکمرانوں کو بھی توفیق دے کہ وہ اپنی اصلاح کریں۔