کراچی (اسٹاف رپورٹر)امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹرسراج الحق نے مطالبہ کیا ہے کہ ٹرین کے سانحے کی عدالتی تحقیقات کرائی جائے ،عدالت عظمیٰ اس کا از خود نوٹس لے اور غفلت کے مرتکب ہونے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے ۔ وزیر ریلوے 75افراد کے زندہ جل جانے والے اس سانحے کی ذمے داری قبول کریں ۔ وزیر اعظم عمران خان قوم کو بتائیں کہ اس کا ذمے دار کون ہے ؟ ۔اسلام آباد آج کنٹینرز کا شہر بن گیا ہے ۔ اس پورے منظر نامے اور شور شرابے میں مظلوم اور نہتے کشمیریوں کی آواز دب گئی ہے ۔ حکومت کی توجہ بھی کشمیریوں کی طرف نہیں ہے ۔ وزیر اعظم ایل او سی کی طرف بڑھنے والوں کو غدار کہہ رہے ہیں ۔ اقوام متحدہ میں 27ستمبر کو تقریر کے بعد سے آج تک وزیر اعظم نے کشمیریوں کے حقوق کے تحفظ اور کشمیر کی آزادی کے لیے کوئی لائحہ عمل نہیں دیا ہے ۔ جس سے کشمیریوں کے اندر مایوسی پیدا ہو رہی ہے اور اس کا فائدہ بھارت کو ہو رہا ہے ۔ کشمیر ملک اور قوم کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے لیکن حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے عوام ، قومی و سیاسی قیادت اور پارلیمنٹ کو اس حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا ہے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ادارہ نور حق میں جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ قبل ازیں سینیٹر سراج الحق اور جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین کے درمیان ایک تفصیلی ملاقات ہو ئی جس میں ملک کی موجودہ صورتحال ،سیاسی و معاشی مسائل بالخصوص مسئلہ کشمیر کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا اور مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے پر اتفاق کیا گیا ۔ملاقات میں ٹرین کے سانحے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا گیا اور زخمیوں کے لیے جلد صحت یابی کی دعا کی گئی ۔اس موقع پر جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امرا اسد اللہ بھٹو ، ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی ، مرکزی ڈپٹی سیکرٹری حافظ ساجد انور ، صوبائی امیر محمد حسین محنتی ، کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن ،ڈپٹی سیکرٹری راشد قریشی ، سیکرٹری کراچی عبدالوہاب ، نائب امیر راجا عارف سلطان، ڈپٹی سیکرٹری یونس بارائی ، امیر ضلع قائدین سیف الدین ایڈووکیٹ ، سیکرٹری اطلاعات زاہد عسکری اور دیگر بھی موجود تھے ۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ موجودہ وزیر ریلوے کے دور میں یہ 19واں حادثہ ہے ۔ ماضی میں وہ کہتے تھے کہ کسی بھی حادثے کی ذمے داری حکومت کو قبول کرنی چاہیے اب وہ ایسا کیوں نہیں کرتے ۔ سراج الحق نے کہا کہ حکومت کی 14ماہ کی نا اہلی اور نا قص کارکردگی کے باعث ملک کے حالات خراب ہو ئے ہیں ۔ خود حکومت نے قومی وحدت اور اتحاد کو پارا پارا کیا ہے اور پارلیمنٹ کو بے توقیر کیا ہے ۔14ماہ میں کوئی قانون سازی نہیں کی ہے ۔ ملکی معیشت کا پہیہ رک گیا ہے ،نوجوان مایوس ہو رہے ہیں ، روزگار ختم ہو گیا ہے اور مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے ،روزانہ کمانے والے 70فیصد افراد کی آمدنی ان کے خرچ سے کم ہے اور 30فیصد افراد قرض لے کر گزارہ کر رہے ہیں ۔ تاجر برادری سے حکومت کے مذاکرات اور معاہدہ ، سوپیاز اور سو جوتوں کے مترادف ہے ۔ یہ کام پہلے کرتے ہیں اور سوچتے بعد میں ہیں ۔ ملک میں حالات کی بہتری کا واحد راستہ یہ ہے کہ عدل و انصاف اور قانون کی حکمرانی قائم ہو اور جمہورکا حق سلب نہ کیا جائے ۔ احتجاج ہر پارٹی کا حق ہے اور وزیر اعظم خود کہہ چکے ہیں کہ جو بھی اسلام آباد میں دھرنا دینے آئے گا اس کو کنٹینر دیں گے اور مہمان نوازی کریں گے ۔ اب مہمان وہاں پہنچ چکے ہیں اور آج پہلی رات ہے ۔ وزیر اعظم اپنے وعدے کے مطابق ان کے لیے بہترین مہمان نوازی کا اہتمام کریں اور کوئی ایسا اقدام نہ اُٹھایا جائے جس سے حالات خراب ہوں ۔ سینیٹر سراج الحق نے جسٹس وجیہ الدین کی ادارہ نورحق آمد پر ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ ایک معتبر ، دانا ،بینا اور جہاندیدہ شخصیت ہیں ۔ ملک کے موجودہ حالات اور اہم ایشوز پر تفصیلی بات چیت ہوئی ہے اور ہمارے درمیان اتفاق رائے پایا جاتا ہے ۔ جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین نے کہا کہ جماعت اسلامی کے قائدین کے ساتھ ملاقات میں مسئلہ کشمیر سمیت ملک کے دیگر اہم مسائل کے حوالے سے مشترکہ کوشش کرنے پر اتفاق ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آزادی مارچ سے پیدا ہونے والی صورتحال سب کے سامنے ہے اگر پہلے بات چیت کر لی جاتی تو معاملات یہاں تک نہ پہنچتے ۔ انہوں نے کہا کہ وزیر ریلوے کے دور میں 19واں حادثہ ہے اور یہ تعداد بسم اللہ کے اعداد بنتے ہیں ۔ اس لیے شیخ رشید کے لیے استعفا دینے کی بسم اللہ کا وقت آگیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے آئین میں وفعہ 370اور 35اے کا خاتمہ کر کے خود اپنے پائوں پر کلہاڑی ماری ہے ۔کیونکہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد 26اکتوبر1947ء کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادیں جن میں کشمیریوںکے استصواب ِ رائے کی بات کی گئی تھی وہ قرار دادیں زندہ ہو گئی ہیں اور شملہ معاہدہ بھی ختم ہو گیا ہے ۔ اس لیے اب حکومت کی ذمے داری ہے کہ اس مسئلے کو اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف میں لے جائے ۔ آئین اور قانون کے تحت پوری قوت اور جرأت مندی کے ساتھ اس مسئلے پر آگے بڑھے ۔ آزاد کشمیر کی اسمبلی اور وزیر اعظم آزاد کشمیر کو مزید مضبوط اور با اختیار بنائے ۔