عالمی مفادات کا بلیک ہول

326

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نہایت فاتحانہ انداز میں شام میں ایک فوجی آپریشن کے دوران دولت اسلامیہ عراق اور شام (داعش) کے سربراہ ابوبکر البغدادی کی ہلاکت کا اعلان کیا۔ شام میں ہونے والے اس آپریشن کی اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے ایبٹ آباد آپریشن کی طرز پر تشہیر کی گئی۔ اوباما کی طرح ٹرمپ نے بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ وائٹ ہائوس کے سچویشن روم میں شام میں ہونے والے آپریشن کا لمحہ بہ لمحہ نظارہ کیا اور یہ ظاہر ہے کہ یہ اطمینان ہونے کے بعد کہ ابوبکر البغدادی اس آپریشن میں ہلاک ہوگئے ہیں ٹرمپ نے اسامہ آپریشن طرز پر فتح کا نقارہ بجادیا۔ ٹرمپ کی طرف سے باضابطہ اعلان ہونا تھا کہ عالمی راہنمائوں کی طرف سے اس کامیابی پر مبارکباد کے پیغامات جاری ہونا شروع ہوگئے اور اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سفر کا ایک اہم سنگ میل قرار دیا جانے لگا۔ برطانیہ، جاپان، فرانس، اسرائیل، بحرین اور ترکی نے اسے ایک بڑی کامیابی قرار دیا جبکہ روس کا تبصرہ روکھا پھیکا تھا یعنی یہ کہ اس خبر کی تصدیق نہیں کی جا سکتی۔ سب سے دلچسپ تبصرہ ایران کے وزیر اطلاعا ت نے کیا جنہوں نے صدر ٹرمپ کے فاتحانہ ٹویٹ کو اس تبصرے کے ساتھ ری ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ: ’’البغدادی کی ہلاکت کوئی کارنامہ نہیں آپ نے اپنی تخلیق کو خود ہی ختم کیا‘‘۔ ایران ہمیشہ سے یہ الزام لگاتا رہا ہے کہ امریکا نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے داعش کو بنایا بھی ہے اور اسے استعمال بھی کررہا ہے۔ یہ محض الزام نہیں بلکہ کئی مواقع اور مقامات پر اس بات کی تصدیق ہوتی رہی کہ داعش کی کارروائیاں مسلمان دنیا کو غیر مستحکم کرنے کے لیے بطور سہارا استعمال ہو رہی ہیں۔
عراق اور شام سے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کرنے والی یہ تنظیم اپنی عسکری کارروائیوں میں شدت اور وحشت کی قائل تھی اور تنظیم نے رونگٹے کھڑے کر دینے والی کارروائیاں کر کے دہشت ووحشت کو ایک نیا انداز دیا۔ یہ تنظیم اپنے اثرات اب عراق وشام سے باہر مرتب کرنے جا رہی تھی۔ افغانستان، پاکستان اور کشمیر اور بھارت تک اس کے قدموں کی چاپ سنائی دینے لگی تھی۔ بالعموم سرد جنگ کے بعد اور بالخصوص نائن الیون کے بعد دنیا حالات واقعات اور مقاصد اور مفادات کا ایک ’’بلیک ہول‘‘ بن کر رہ گئی۔ اس بلیک ہول میں کیا ہورہا ہے؟ کیوں ہورہا ہے؟ کون کر رہا ہے؟ ان سوالوں کا دوٹوک جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ دہشت گردی دہشت گردی کا شور محشر برپا تھا کہ جس میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ تیل کی دولت سے مالا مال عرب دنیا کو دوبار ادھیڑ دیا گیا۔ ایک بار صدام حسین کے نام پر تو دوسری بار صدام کے کیمیائی ہتھیاروں کی تلاش کے نام پر اس ملک کے بخیے ادھیڑ دیے گئے۔ کچھ کام القاعدہ اور اسامہ بن لادن کے نام پر ہوا اور القاعدہ کے خاتمے کا اعلان کیا جارہا تھا کہ اس راکھ سے داعش کا نیا جنم ہو رہا تھا۔ اس طرح سایوں کے تعاقب کا عمل جا ری تھا۔ باقی کسر عرب بہار کے نام پر جمہوریت کا سودا بیچنے کی صورت میں پوری کر دی گئی۔ عرب بہار کی کوکھ سے شام کے بحران نے جنم لیا اور خانہ جنگی نے اس تاریخی ملک کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔ یمن کا بحران بھی اسی گود میں پل کر جوان ہوا۔
داعش کے قدم عرب دنیا سے باہر نکلنے کو تیار تھے۔ افغانستان کے راستے پاکستان میں داخلے کا مطلب ایک نئی تباہی وبربادی تھا۔ افغانستان میں تو طالبان کے مقابلے کے لیے داعش کا مضبوط کرنے کا عمل شروع ہو چکا تھا اور گھر کے بھیدی حامد کرزئی نے امریکی ہیلی کاپٹروں میں داعش کے ارکان کی ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقلی کا الزام کھلے بندوں عائد کیا تھا۔ کشمیر میں تو داعش کی بینر لہرائے جا رہے تھے اور نوجوانوں کو اس جانب مائل کرنے کی کوششیں زوروں پر تھیں۔ بھارت میں بھی کچھ ایسا ہی ہورہا تھا۔ اس کا مطلب ان لوگوں پر ایک نئی اُفتاد تھا۔ پاکستان نے اس کھیل کو پہلے ہی سمجھ لیا تھا اسی لیے فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کئی بار دوٹوک انداز میں کہا تھا کہ پاکستان کی سرزمین پر داعش کا سایہ بھی نہیں پڑنے دیں گے۔ سرد جنگ کے بعد سوویت یونین کا خطرہ ختم ہوجانے کے بعد لہو گرم رکھنے کے لیے جو بہانہ چاہیے تھا اس کا نام کبھی صدام رکھا گیا تو کبھی القاعدہ اور داعش۔ ان سایوں کا تعاقب کرتے کرتے مسلمان ملکوں پر قیامت برپا کی گئی۔ داعش بھی مسلمان، ان کا شکار بھی مسلمان، باقیوں کے لیے ہینگ لگے نہ پھٹکری رنگ بھی چوکھا آئے والا معاملہ۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہتا رہا اور تیل پر عالمی مہربانوں کا تصرف ہوتا رہا۔ جیسا کہ اب عراق میں امریکی فوجیوں پر تیل کی چوری کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔
بیتے ہوئے ماہ وسال میں بڑی طاقتوں کا بڑے کھیل پوری قوت سے جاری رہا اس کھیل کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا گیا۔ دہشت گردی اور اس کے خاتمے کے نام پر پوشیدہ مقاصد اور مفادات کی ایک ایسی کھچڑی پکتی رہی کہ جس کی تہ میں جھانکنا کسی کے لیے ممکن نہ رہا۔ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کو اوباما نے اپنے سیاسی اور انتخابی مقاصد کے لیے استعمال کیا اب لگتا ہے کہ البغدادی کی ہلاکت سے یہی کام ٹرمپ لینے جا رہا ہے۔ بڑی طاقتوں کے کھیل بھی بڑے اور عجیب ہوتے ہیں۔ پوشیدہ مقاصد کے لیے پراسرار کردار تراشے جاتے ہیں اور پھر ان مقاصد کی تکمیل یا تبدیلی کے بعد اپنے ہی تراشیدہ کردار مٹائے جاتے ہیں۔ وینز ویلا میں شاویز کے خلاف مدتوں پہلے ناکام بغاوت تو اس لحاظ سے دلچسپ ٹھیری تھی کہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے پوچھا گیا کہ امریکی حمایت یافتہ بغاوت ناکام کیوں ہوئی تو جواب تھا کہ پنٹاگون نے بغاوت کو ناکام بنانے کے لیے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے زیادہ سرمایہ لگایا تھا۔