تفتیشی افسر ہی مدعی کوجھوٹے گواہ لانے کا کہتا ہے،چیف جسٹس

103

اسلام آباد (اے پی پی) عدالت عظمیٰ نے سرگودھا میں کئی سال قبل قتل کے ایک مقدمے میں مبینہ طور پر جھوٹی گواہی دینے والے پولیس اہلکاروں مقبول حسین اور ظفر عباس کا معاملہ متعلقہ سیشن جج کو بھجوا تے ہوئے ڈی پی او سرگودھا کوہدایت کی ہے کہ مقدمے کے تفتیشی آفیسر کے کنڈکٹ کا جائزہ لے کر اس کیخلاف کارروائی کی جائے۔ پیر کو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی ،دونوں جھوٹے گواہان مقبول حسین اور ظفر عباس عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ دونوں افراد متعلقہ کیس میں چشم دید گواہ نہیں تھے لیکن انہوں نے پھر جھوٹی گواہی دی تھی، عدالت کوان دونوں سے محض اتنی ہمدردی ہے کہ آپ کے بھائی اور کزن کا قتل ہوا، لیکن آپ دونوں نے اللہ کو حاضر ناظر جان کر جھوٹی گواہی دی ہے حالانکہ جھوٹی گواہی دینا گناہ کبیرہ ہے، عدالت کے استفسارپرمقبول حسین نے مؤقف اپنایاکہ میں واقعہ کا چشم دید گواہ ہوں اور میں نے اپنے بھائی اقرار کا قتل اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، ہم نے سچی گواہی دی ہے اور اگرہم نے جھوٹ بولا ہو تو خدا ہمیں غرق کرے، جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ عموماً تفتیشی افسر ہی مدعی کوجھوٹے گواہ لانے کے لیے کہتا ہے، اگرتفتیشی افسر ایسا نہ کرے تو مدعیان کبھی جھوٹے گواہ نہ لائیں، اس لیے ہم یہ معاملہ سیشن جج سرگودھا کو بھجوا رہے ہیں، جہاں دونوں گواہ اپنادفاع کرکے خود کوبے گناہ ثابت کریں۔ بعدازاں عدالت نے معاملہ سیشن کورٹ سرگودھا کوبھجواتے ہوئے نمٹادیا۔
چیف جسٹس