خان جارہا ہے۔ مارشل لا کا کوئی خطرہ نہیں

1191

تجزیہ وہ ہوتا ہے جو وقت سے پہلے کیا جائے، جب وقت اپنا سارا کام کر دکھائے، طوفان تھم جائے اور منظر صاف ہوجائے تو پھر کسی تجزیے کی ضرورت باقی نہیں رہتی، کیوں کہ تب تو عام آدمی بھی اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ لیتا ہے کہ کیا ہوا اور کیا نہیں ہوا۔ پاکستان کا موجودہ ’’سیاسی بحران‘‘ جو تحریک انصاف کی حکومت اور جمعیت علمائے اسلام کے ’’آزادی مارچ‘‘ کے درمیان کشمکش سے پیدا ہوا ہے اِس بحران کے نتیجے میں کیا کچھ ہونے والا ہے۔ آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
(1) وزیراعظم عمران خان کا اقتدار ختم ہورہا ہے۔ خان صاحب استعفا دے دیں گے۔ ان ہائوس تبدیلی آئے گی اور نئے وزیراعظم کا انتخاب ہوجاگا یا یہ کہ اسمبلیاں توڑ دی جائیں گی اور نگراں حکومت قائم ہوگی؟۔ غالب امکان ہے کہ اسمبلیاں توڑی جائیں گی اور نگراں حکومت 2 یا 3 سال بعد ملک میں نئے عام انتخابات کرائے گی۔ ایسا کیوں ہوگا اس کی بھی چند وجوہات ہیں۔ مثلاً ’’اِن ہائوس تبدیلی‘‘ سے مولانا فضل الرحمن صاحب کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ اِن ہائوس تبدیلی میں سب سے زیادہ فائدہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پرٹی کا ہوگا۔ سندھ میں حکومت پیپلز پارٹی کی ہے جو بچ جائے گی جب کہ نیا وزیراعظم مسلم لیگ (ن) کا ’’دوست‘‘ آجائے گا۔ اِس طرح سے تحریک انصاف کے بعض وزرا بھی انتقامی کارروائیوں کی زد میں آنے سے محفوظ رہیں گے تاہم مولانا ایسی غلطی کبھی نہیں کریں گے کہ تکبیر وہ کہیں اور امامت کوئی دوسرا کرے۔ لہٰذا قومی امکان ہے کہ اسمبلیاں توڑے جانے تک مولانا اسلام آباد ہی میں پڑائو ڈالے رہیں گے۔
سوال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کیا عمران خان کے پاس اپنی حکومت بچانے کا اب کوئی دوسرا آپشن نہیں رہا۔ اِس حوالے سے بھی ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ واقعی خان صاحب کے پاس اقتدار بچانے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کو خان صاحب سے ناراض کردیا ہے، جب کہ ان کا رویہ اور وزرا کی گفتگو نے مزید جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ عوامی حلقوں میں خان صاحب اور وزرا کو بدتمیز اور بداخلاق سمجھا جارہا ہے۔ عوام کو ریلیف ملنے کی توقعات بھی دم توڑ چکی ہیں۔ خان صاحب نے ’’بے رحم احتساب‘‘ کے لیے جو اقدامات اٹھائے وہ یقینا عوام الناس میں بہت پسند کیے گئے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ طاقتور اور بااختیار لوگ احتساب کے شکنجے میں آئے جس کا تمام تر کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے۔ تاہم قیادت اوراقتدار کو عوام کے اندر مقبول رکھنے کے لیے بعض دیگر اقدامات بھی اُٹھانے تھے جو نہ اُٹھائے جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ خان صاحب بے رحم احتساب کا اعزاز رکھنے کے باوجود غیر مقبول اور تنہا ہوگئے۔ خان صاحب استعفا نہ دینے کی بات کررہے ہیں مگر شاید انہوں نے پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا۔ اسکندر مرزا سے لے کر میاں نواز شریف تک کسی بھی سول اور فوجی حکمران نے خوشی سے استعفا نہیں دیا مگر لینے والوں نے اُن سے استعفا لے لیا۔ وقت آنے پر اِن سے بھی استعفا لے لیا جائے گا اور یہ سب کچھ ’’قومی مفاد‘‘ کی خاطر ہوگا۔
(2) مولانا فضل الرحمن نے عمران حکومت کے خلاف ’’آزادی مارچ‘‘ کی تحریک شروع کرنے کے لیے جس وقت اور طریقہ کار کا انتخاب کیا ہے وہ ہر حوالے سے درست اور بروقت ہے۔ مولانا نے حکومت کی کمزوریوں، اپوزیشن کی تشویش اور عوام کے اندر پائی جانے والی بے چینی کا صحیح تجزیہ کیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی جارحیت اور مداخلت سے محفوظ رہنے کے لیے مولانا نے گردوپیش کے حالات اور داخلی صورتِ حال کو جو سمجھا وہ ٹھیک سمجھا۔ مولانا جانتے ہیں کہ اسلام آباد میں ’’لال مسجد‘‘ جیسا کوئی دوسرا آپریشن کرنا اب ممکن نہیں، مولانا اداروں سے ٹکرائو نہیں چاہتے، وہ اپنے احتجاجی قافلوں کو پُرامن رکھنا چاہتے ہیں، پُرامن احتجاج کی اجازت عدالت نے بھی دے رکھی ہے، تاہم آثار کچھ ایسے نظر آرہے ہیں کہ حکومت پُرامن جمہوری احتجاج کے خلاف طاقت کا استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو ’’آزادی مارچ‘‘ پورے ملک میں پھیل جائے گا جس کے بعد حکمرانوں کے لیے بھی محلات اور دفاتر سے بخیروعافیت باہر نکلنے کے تمام دروازے بند ہوجائیں گے جس کا بعد میں خان صاحب کو افسوس ہوگا۔ مولانا کا ’’آزادی مارچ‘‘ خاک سے گزرے یا خون میں لت پت ہوجائے اپنی منزل کو ضرور پہنچے گا۔
(3) بعض سیاستدان اور دانشور حضرات ’’آزادی مارچ‘‘ کے نتیجے میں ’’مارشل لا لگنے کا راگ الاپ رہے ہیں۔ ایسا کہنے والے دوطرح کے لوگ ہیں، ایک وہ جو اقتدار میں ہیں اور مارشل لا کا خوف دِلا کر مولانا کو روکنا چاہتے ہیں تا کہ اِ ن کا اقتدار محفوظ رہے اور دوسرے وہ لوگ ہیں جن کی بصیرت کی آنکھ کمزور ہے، انہیں سب دُھندلا نظر آرہا ہے، اس لیے وہ مارشل لا کا واویلا کررہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’تیسری قوت‘‘ کا خوف دِلانے والوں کے پاس ’’سیاسی قوت‘‘ نہیں ہے کہ وہ کچھ کرسکیں، فوج کو مفروضوں کے تحت بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، جب کہ یہ بات ہر طرح سے طے شدہ اور فیصلہ کن ہے کہ جنرل صاحبان قطعاً مارشل لا لگانے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ انہیں سیاستدانوں کے پھیلائے ہوئے کچرے کو صاف کرنے کی فرصت اور ضرورت نہیں، ان کے نزدیک پاکستان کا دفاع زیادہ اہم ہے۔ پاک بھارت کشیدگی،گردوپیش کے حالات اور بعض عالمی سامراجی قوتوں کی سازشوں کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے دفاع اور سلامتی کو خطرات اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ لہٰذا سیاستدانوں کی دھکم پیل سے ان کو کوئی دلچسپی نہیں جو جس کا بازو مروڑنا چاہتا ہے اپنا شوق پورا کرے، تاہم اِس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ موجودہ ’’سیاسی بحران‘‘ کو فوجی کمان نظر انداز کررہی ہے۔ فوج آئین کے تحت حکومتی اقدامات اور احکامات کو ماننے کی پابند ہے، وہ یہ پابندی ضرور کرے گی لیکن حکومت کی رٹ کو بحال رکھنا اور سیاسی معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنا حکومت کا اپنا کام ہے۔ فوج داخلی امن کو یقینی بنائے رکھنے کے لیے اپنی ڈیوٹی ضرور دے گی، تاہم وہ کسی کے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔ حکومت ’’آزادی مارچ‘‘ کو کس طرح سے ہینڈل کرتی ہے یہ اِس کی اپنی بصیرت اور صوابدید پر ہے۔ پاک فوج آئین کی وفادار اور ملک کی محافظ ہے۔ وہ اپنے اس فرض اور ذمے داری سے بخوبی آگاہ ہے۔ البتہ کسی پُرتشدد سیاسی تصادم یا حکومتی سسٹم کے ناکام ہونے کی صورت میں فوج آگے بڑھ سکتی ہے تاہم اس کا یہ بڑھنا ’’مارشل لا‘‘ کی صورت میں نہیں ہوگا بلکہ صدر اور وزیراعظم کو اُن آئینی اقدامات کی طرف توجہ دلانا ہوگی جنہیں صاحبان اقتدار نظر انداز کررہے ہوں گے۔
بہرحال ہم آخر میں ایک بار پھر یہ کہنا چاہیں گے کہ خان جارہا ہے، مولانا آرہا ہے اور مارشل لا کا قطعاً کوئی خطرہ نہیں۔