حضرت مولانا فضل الرحمن کا اوریجنل پروگرام تو یہ ہے کہ وہ 31 اکتوبر کو آزادی مارچ لے کر اسلام آباد پہنچیں گے‘ ڈی چوک پر دھرنا دیں گے اور اپنے پندرہ لاکھ کارکنوں کے ساتھ اسلام آباد کو لاک ڈائون کردیں گے۔ ان کے اس پروگرام میں ابھی بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ حکومت نے مولانا کے پروگرام کا احترام کرتے ہوئے ازخود اسلام آباد کو لاک ڈائون کرنے کے اقدامات شروع کردیے ہیں۔ خبروں میں بتایا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا کو پنجاب اور اسلام آباد سے ملانے والے اٹک پل کو کنٹینر کے ذریعے بلاک کردیا گیا ہے یا عنقریب بلاک کردیا جائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ پندرہ لاکھ میں سے دس لاکھ افراد تو خیبرپختونخوا سے آئیں گے، ان کی آمدورفت کا واحد ذریعہ اٹک پل ہے، یہ پل بند ہوگیا تو حکومت کے لیے بڑا خطرہ ٹل جائے گا۔ جب کہ پنجاب سے وفاقی دارالحکومت پہنچنے والے تمام راستے بھی بلاک کیے جانے کا امکان ہے۔ اِن راستوں میں فیض آباد کا وہ مشہور چوک بھی شامل ہے جہاں تحریک لبیک کے علامہ خادم حسین رضوی نے دو ہزار افراد کے ہمراہ دھرنا دے کر پچھلی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھا۔ اِن دنوں جسٹس فائز عیسیٰ کے ریفرنس کیس میں بھی فیض آباد دھرنے کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا، ہم آزادی مارچ کا ذِکر کررہے ہیں جسے روکنے کے لیے حکومت ایک طرف اپنی تیاریوں کو آخری شکل دے رہی ہے اور دوسری طرف وہ آزادی مارچ کے قائدین بلکہ اس کے اصل دولہا مولانا فضل الرحمن سے مذاکرات بھی کرنا چاہتی ہے۔ مولانا بھی این و آں کے بعد مذاکرات کے لیے آمادہ تھے، مولانا کی بنیادی شرط تو یہی تھی کہ عمران خان پہلے استعفا دیں پھر مذاکرات کی میز پر آئیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی بھی قائم کردی تھی۔ جب مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو معلوم ہوا کہ مولانا حکومت سے بالا بالا کوئی معاملہ طے کرنا چاہتے ہیں تو وہ دونوں ہتھے سے اکھڑ گئیں، انہیں اندازہ ہوا کہ حضرت مولانا اپنے سیاسی شو میں انہیں صرف ’’شامل باجا‘‘ رکھنا چاہتے ہیں اور فیصلے کے تمام اختیارات اپنے پاس رکھنے کے خواہاں ہیں۔ چناں چہ دونوں جماعتوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ شہباز شریف نے کہا کہ وہ دھرنے کے خلاف ہیں، بس ایک جلسہ ہونا چاہیے، جس میں حکومت کو اپنے تمام مطالبات پیش کردیے جائیں۔ بلاول زرداری نے بھی یہ دہائی دی کہ ہماری طرف سے کوئی ایسی حرکت نہیں ہونی چاہیے جس سے کسی تیسرے فریق کو آگے آنے کا موقع مل جائے۔
بہرکیف اس بحث مباحثے کا نتیجہ یہ نکلا کہ حضرت مولانا نے اِن جماعتوں کے آگے سرنڈر کردیا اور طے پایا کہ حکومت سے مذاکرات مولانا کی مذاکراتی کمیٹی کے بجائے اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کرے گی۔ حکومت نے رہبر کمیٹی سے بھی ہاتھ کرنا چاہا، اس کے ارکان سے الگ الگ بات کرکے انہیں توڑنے کی کوشش کی لیکن بات نہ بنی۔ آخر یہی طے پایا کہ حکومت کی مذاکرات کمیٹی اپوزیشن کی رہبر کمیٹی سے باجماعت مذاکرات کرے گی۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ کسی ستم ظریف نے برسوں پہلے مولانا فضل الرحمن پر ڈیزل کی پھبتی کَسی تھی لیکن مولانا کبھی اس سے بدمزہ نہیں ہوئے، نہ اسے اپنی چڑ بنایا، رفتہ رفتہ لوگ اسے بھول گئے، خاص طور پر سیاستدانوں نے مولانا کو کبھی اس نام سے مخاطب نہیں کیا، لیکن عمران خان واحد سیاستدان ہیں جو وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے کے باوجود اس پھبتی سے چمٹے ہوئے ہیں، وہ اس وقت مولانا کے آزادی مارچ پروگرام کے سبب مشکل سے دوچار ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اپنی افتاد طبع سے باز نہ آئے اور چند روز پیشتر مولانا پر طنز کے تیر چلاتے ہوئے فرمایا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ حکومت بھی ڈیزل کے بغیر چل رہی ہے اور اسمبلی بھی۔ اس پر اِن کے دوستوں نے انہیں مشورہ دیا کہ ایک طرف آپ مولانا سے مذاکرات کا ڈول بھی ڈال رہے ہیں اور دوسری طرف ان کا مذاق بھی اُڑا رہے ہیں، یہ رویہ درست نہیں، آپ اپنا رویہ درست کریں۔ لیکن اطلاعات سے پتا چلتا ہے کہ خان صاحب نے یہ مشورہ قبول کرنے سے انکار کردیا، اس سے مذاکرات کے مستقبل کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
جب ہم یہ سطور تحریر کررہے ہیں تو مذاکرات ہونے ابھی باقی ہیں لیکن حکومت نے مولانا فضل الرحمن کو مشروط آزادی مارچ کی اجازت دے دی ہے۔ یہ اجازت اسے اس لیے دینا پڑی ہے کہ عدالتوں نے آزادی مارچ پر پابندی لگانے سے انکار کردیا تھا۔ البتہ ذمے داری انتظامیہ پر ڈال دی تھی کہ وہ مارچ کو قانون کی حدود میں رکھے۔ قانون کی حدود کہاں شروع ہوتی ہیں اور کہاں ختم ہوتی ہیں؟۔ یہ اُس وقت پتا چلے گا جب مارچ اسلام آباد میں داخل ہوگا۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ عدالتوں کے فیصلے کے بعد مولانا فضل الرحمن آزادی مارچ کا پہلا رائونڈ جیت گئے ہیں۔ دوسرا اور آخری رائونڈ وہ اس وقت جیتیں گے جب وہ مارچ کو لے کر اسلام آباد میں داخل ہوں گے۔ حکومت نے بظاہر مارچ کی مشروط اجازت دے تو دی ہے لیکن وہ جس قسم کی تیاریوں میں مصروف ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ قانون کی آڑ میں مارچ کو اسلام آباد میں داخل نہیں ہونے دے گی۔ اسلام آباد آنے والے تمام راستوں کو تو کنٹینرز کے ذریعے بلاک کیا ہی جارہا ہے خود اسلام آباد کے اندر بھی سڑکیں بند کی جارہی ہیں۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ خندقیں بھی کھودی جارہی ہیں، اسی طرح اسلام آباد عملاً لاک ڈائون ہوگیا ہے اور مولانا کو کیا چاہیے۔ رہا عمران خان کا استعفا تو وہ بعد کی بات ہے۔ استعفا لینے والے جب چاہیں گے لے لیں گے مولانا کیوں ہلکان ہورہے ہیں؟۔