نادرا نے اچانک جے یو آئی رہنما حافظ حمد اللہ کو غیر ملکی قرار دے کر ان کا شناختی کارڈ منسوخ کردیا ہے۔ اس حکم کے ساتھ ہی اس فیصلے کی وجہ بھی سامنے آگئی۔ پیمرا نے فوری طور پر حافظ حمد اللہ کو ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں بلانے پر پابندی لگا دی۔ گویا اس غیر ملکی شہری سے یہی خطرہ تھا کہ وہ ٹی وی پر آکر حکومت کے خلاف بات کرے گا۔ ظاہری بات ہے کہ بہت سادا سا معاملہ نہیں ہے۔ ایک آدمی کئی برس ملک کے اعلیٰ ترین منتخب ادارے سینیٹ آف پاکستان کا رکن رہا اس کی کمیٹیوں کا رکن رہا۔ اس کے والد سرکاری اسکول ٹیچر رہے۔ سینیٹ، الیکشن کمیشن اور دیگر اداروں سے پہلے حساب ہونا چاہیے تھا کہ وہ کیا کر رہے تھے۔ کیا اگلا قدم حافظ حمد اللہ کے والد صاحب کو دی گئی تمام تنخواہ واپس لینا ہوگا۔ پھر حافط صاحب کو رکن سینیٹ کے طور پر جو مراعات دی گئی تھیں ان سب کو واپس لیا جائے گا۔ جہاں تک کسی غیر ملکی کو ٹی وی پروگرام میں بلانے کا تعلق ہے تو اس کی آئینی اور قانونی پوزیشن ماہرین قانون کو بتانی چاہیے کہ کسی کا غیر ملکی ہونا اس کو ٹی وی چینلز پر بلانے سے منع کرنے کا سبب کیونکر ہو سکتا ہے۔ پمیرا نے حافظ حمد اللہ کی کوریج کرنے پر پابندی لگائی ہے لیکن گزشتہ دنوں ہمارے آقائوں کے بچے آئے تھے۔ پیمرا کی ناک کے نیچے ان کی تو خوب کوریج ہوئی وہ غیر ملکی ہی تھے، تو پھر ان کی کوریج پر پابندی کیوں نہیں لگی۔ اس سے قبل غیر ملکی کرکٹرز بھی پاکستانی ٹی وی اور ریڈیو پر تبصرے کر رہے تھے۔ کسی نے ان پر پابندی لگائی گئی۔حافظ حمد اللہ کوئی پہلے سیاسی رہنما نہیں جن پر اس قسم کی بے سرو پا پابندی لگائی گئی ہے۔مسلم لیگ کے رانا ثنا اللہ کے خلاف ایسا ہی مقدمہ چل رہا ہے۔ پہلے ایسا لگا کہ منشیات سمیت پکڑے گئے ہیں اب مقدمہ ہے کہ چل ہی نہیں پا رہا۔ کسی کے پاس سے شراب کی بوتل نکلتی ہے وہ شہد بن جاتا ہے اور پھر وہ صاحب کشمیر کے وزیر بن جاتے ہیں۔ سندھ کے سابق وزیر کے پاس سے شراب نکلتی ہے زیتون کا تیل بن جاتی ہے۔ وہ تو چیف جسٹس نے برآمد کی تھی… لیکن ہمارا نظام حکومت ایسا ہی ہے۔ حافظ حمد اللہ کا معاملہ صرف ایک شخص کا نہیں ہے یہ دراصل پاکستانی آئین کے ساتھ مذاق ہے۔ جنرل پرویز مشرف پھر عمران خان کی آمد اس دوران مذہبی جماعتوں اور رہنمائوں کی جس طرح جانچ پڑتال ہوتی تھی اس کے باوجود حافظ حمد اللہ تمام قانونی تقاضے پورے کر رہے تھے۔ ایک آئینی ادارے کے منتخب رکن کا مطلب یہ ہے کہ منتخب کرنے والے ارکان صوبائی اسمبلی کے بارے میں بھی نادرا اور الیکشن کمیشن کو فیصلہ کرنا چاہیے۔ سیاسی اختلاف کو کھیل نہ بنایا جائے۔ ویسے بھی پابندی لگائی جا سکتی تھی۔ اس قدر پیچیدگی پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔اگر حافظ حمد اللہ غیر ملکی ہیں تو پورا آئینی نظام ہل جانا چاہیے۔ ایک آدمی کی دوسری نسل کا فرد اپنی عمر کے تقریباً 60 برس اس ملک میں گزار چکا اور ہمارا نادر ادارہ اسے غیر ملکی قرار دے رہا ہے۔ یہ کمال تو نادرا نے کراچی کے اورنگی ٹائون اور بعض ایسے ہی علاقوں میں دکھایا ہوا ہے۔ یہاں تو تیسری نسل آنے کے بعد یاد آیا کہ دادا کا میٹرک کا سرٹیفکیٹ لائو۔ کوئی تو 1974ء کا پہلا شناختی کارڈ بھی لے آیا لیکن کیا کہا جاسکتا ہے ایسے نادر ادارے کے بارے میں۔