پاکستان میں سیاسی حالات پل پل کروٹ بدل رہے ہیں۔ اس وقت حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتوں میں اعصاب شکن محاذ آرائی جاری ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا اعلان کردہ آزادی مارچ عمران خان اور ان کی حکومت کے اعصاب پر سوار ہے۔ عمران خان نے اپوزیشن سے کسی قسم کے مذاکرات کرنے سے انکار کردیا تھا لیکن اپنی فطرت کے مطابق عمران خان نے پھر یو۔ٹرن لے لیا اور دو دن سے اسلام آباد میں حکومتی ٹیم اور اپوزیشن کی رہبر کمیٹی میں مذاکرات جاری ہیں۔ گزشتہ جمعہ کو مذاکرات کے دو دور بے نتیجہ رہے تاہم ہفتے کو بات کچھ آگے بڑھی ہے اور اطلاعات کے مطابق رہبر کمیٹی ڈی چوک پر جلسہ کرنے کے عزم سے دست بردار ہو گئی ہے۔ ایک دن پہلے اس مسئلے پر تعطل تھا۔ عمران خان کو شاید یاد ہو کہ اگست 2014ء میں انہوں نے اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اور ان کے حواری آبپارہ سے آگے نہیں بڑھیں گے۔ مگر وہ اور ان کے سیاسی عم زاد طاہر القادری پورا لشکر لے کر ڈی چوک پہنچ گئے تھے اور پھر 126 دن تک وہیں جمے رہے۔ پھر پارلیمنٹ کی بے حرمتی بھی ہوئی اور پی ٹی وی اسٹیشن پر حملہ بھی ہوا۔ عمران خان کے ایک حواری ٹی وی چینل پر عجیب دلیل پیش کر رہے تھے کہ نواز شریف کی حکومت کمزور تھی اس لیے عمرانی یلغار کو روک نہیں سکی مگر اب ایک مضبوط حکومت ہے اور وہ سب نہیں ہونے دے گی جو خود انہوں نے کیا۔ اگر اس وقت کی حکومت نے سختی کی ہوتی تو آج اس پر واویلا ہو رہا ہوتا۔ عمران خان نے تو اپنے دھرنے میں عوام کو سول نافرمانی پر بھی اکسایا تھا اوراقتدار میں آنے کے بعد جن اقدامات کا اعلان کیا تھا ان میں سے کسی ایک پر بھی نہ صرف یہ کہ عمل نہیں ہوا بلکہ اس کے برعکس ہی ہوا ہے۔ عمران خان کے پاس اس وقت کی ریکارڈنگ تو ہوگی۔ فرصت ملے تو اسے بار بار دیکھیں اور یہ جملہ ضرور غور سے سنیں کہ اگر مہنگائی میں ایک روپے کا اضافہ بھی ہو تو اس کا مطلب ہے کہ حکمران چور ہیں۔ اب ان کے اس ’’فتوے‘‘ کے بعد مزید کیا کہا جائے۔ فی الحال تو یہ تماشا لگا ہوا ہے کہ عمران خان کہتے ہیں اسلام آباد آئیں، مارچ اور جلسے کی سب کو اجازت ہے اور دوسری طرف اسلام آباد ہی نہیں دور دور کے راستے بھی کنٹینر لگا کر بند کر دیے گئے ہیں گویا کہا جارہا ہے کہ اب آ کر دکھائو۔ یہی عمران خان فرما رہے تھے کہ آزادی مارچ والوں کو کنٹینر بھی دیا جائے گا اور کھانا بھی ملے گا… لیکن اب تو حکم جاری ہوا ہے کہ کسی نے بھی کوئی سہولت فراہم کی تو پولیس اسے دھر لے گی۔ یعنی اب اسلام آباد میں کوئی خرید کر بھی کھانا نہیں کھا سکتا۔ کمشنروں کے اختیارات بڑھا دیے گئے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ اختیارات کس کام میں آئیں گے۔ مقبوضہ کشمیر میں تو دہشت گرد مودی نے کشمیریوں کا محاصرہ کر رکھا ہے لیکن پاکستان میں کیا ہو رہا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن میں جاری مذاکرات میں رہبر کمیٹی کے پیش کردہ چار مطالبات میں سے عمران خان نے دو تسلیم کر لیے ہیں تاہم اپنے استعفے اور نئے انتخابات کے مطالبے مسترد کر دیے ہیں۔ ظاہر ہے کہ عمران خان اپنے استعفے کا مطالبہ کیوں تسلیم کرنے لگے جب کہ ان کے بقول فوج ان کے ساتھ ہے۔ بار بار کہا جاتا ہے کہ فوج اور حکومت ایک ’’پیج‘‘ پر ہیں۔ اس کا مطلب خدا جانے کیا ہے لیکن فوج حکومت کے ماتحت ہوتی ہے، ایک پیج پر یا ہم پلّہ نہیں ہوتی۔ تاہم پاکستان کی تاریخ ذرا مختلف ہے۔ جہاں منتخب جمہوری حکومتیں بھی فوج کی بالادستی تسلیم کرنے پر مجبور ہیں ورنہ… اور اب تو پاک فوج کے سالار جناب باجوہ کھل کر کہہ چکے ہیں کہ عمرانی حکومت کا ساتھ دیا جائے۔ فضل الرحمن کا حکومت کے خلاف دھرنے کا درست وقت نہیں ہے، عدم استحکام کی اجازت نہیں دیں گے۔ مائنس عمران پر اصرار کیا گیا تو کچھ اور لوگ بھی مائنس ہو سکتے ہیں، عمران خان آئینی وزیراعظم ہیں۔ پاک فوج کے سربراہ نے واضح کیا کہ آزادی مارچ میں اگر جانی نقصان ہوا تو کسی بھی اقدام سے نہیں ہچکچائیں گے، آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اتنے واضح انتباہ کے بعد عمران خان کیوں استعفا دینے لگے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ یہی مطالبات عمران خان نے کیے تھے کہ نواز شریف استعفا دیں اور نئے انتخابات کرائے جائیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ مارچ اور دھرنے میں اگر جانی نقصان ہوا تو کیا ہوگا؟ آئین میں تو بہت گنجائش ہے اور یہ کبھی کسی کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنا۔ خدا کرے کہ جناب باجوہ کو کوئی سخت قدم نہ اٹھانا پڑے۔ ملک بھر میں پکڑ دھکڑ شروع ہے اور آج مولانا فضل الرحمن کراچی سے اپنے مارچ کا آغاز کر رہے ہیں۔ وہ کیا کرنے جا رہے ہیں اس کے بارے میں وہ خود بھی یکسو نہیں ہیں کہ دھرنا ہوگا، مارچ ہوگا یا اسلام آباد میں ایک دن کا جلسہ ہوگا۔ فوج عمران خان کے پیچھے ہی نہیں آگے بھی ہے پھر بھی حکمرانوں کو پسینے چھوٹ رہے ہیں۔تاہم آخری اطلاعات کے مطابق انتباہ کام کر گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن ڈی چوک سے پیچھے آگئے ہیں اور غالباً پشاور موڑ پر جلسے پر اکتفا کیا جائے گا۔ جس جوش و خروش سے آگے بڑھ رہے تھے اب لگتا ہے کہ سیل بے کراں گرد کارواں کی طرح بیٹھ رہا ہے۔ لیکن جمعیت علماء اسلام کا ساتھ دینے والی جماعتیں کیا رہبر کمیٹی کے فیصلے تسلیم کر لیں گی۔ ان میں سے کچھ جماعتیں کہہ چکی ہیں کہ ہم صرف اسلام آباد کی سیر کرنے نہیں جا رہے، دھرنا دیں گے اور کسی فیصلے تک اٹھیں گے نہیں۔ دیکھیے اگلے دو تین دن میں کیا ہوتا ہے۔