اعجاز رحمانی بھی رُخصت ہوئے

409

اعجاز رحمانی بھی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ فی زمانہ اِن کا شمار اساتذہ میں ہوتا تھا اور یہ مقام انہوں نے جہد مسلسل اور مطالعے سے حاصل کیا تھا۔ اعجاز رحمانی نے ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی اور اپنا سکہ جمایا۔ ویسے تو غزلوں، نعتوں اور منقبت پر مشتمل ان کے 16 سے زیادہ مجموعے چھپ کر تبول عام حاصل کر چکے ہیں تا ہم ان کا ایک بڑا، شاید سب سے بڑا کام ’’عظمتوں کے مینار‘‘ ہے جو خلفائے راشدون کی منظوم سوانح حیات ہے۔ اُردو میں کیا، شاید دوسری زبانوں میں بھی ایسا کام نہیں ہوا۔ عقیدتوں میں ڈوبا ہوا یہ ضخیم مجموعہ 1056 صفحات پر مشتمل ہے اور کوئی ایک شعر بھی ایسا نہیں جس میں غلو کیا گیا ہو۔ صحیح معنوں میں یہ کام تلوار کی دھار پر چلنا ہے اور اعجاز رحمانی مرحوم نے بخوبی یہ کام سر انجام دیا۔ اعجاز رحمانی، جن کو مرحوم لکھتے ہوئے قلم رکتا ہے، بڑی خوبیوں کے انسان تھے۔ نعت گوئی سے خصوصی رغبت تھی اور یہی ان شاء اللہ ان کے درجات کی بلندی کا سبب بنے گی۔ نہایت خوش گلو تھے اور جب پڑھتے تھے تو ایک سماں بندھ جاتا تھا۔ اعجاز رحمانی 12 فروری 1936ء کو علی گڑھ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید ایوب علی ایک اچھے مکینک تھے۔ نو عمری میں پہلے والدہ اور پھر والد کا سایہ سر سے اُٹھنے کی وجہ سے با قاعدہ تعلیم حاصل نہیں کر سکے اور محنت، مشقت پر مجبور ہو گئے۔ 1947 میں پاکستان بنا تو مملکت اسلامیہ کی کشش انہیں پاکستان لے آئی اور کراچی میں یومیہ ساڑھے تین روپے اُجرت پر ایک کارخانے میں کام کرنے لگے۔ شاعری میں اُستاد قمر جلالوی کی شاگردی اختیار کی اور اب خود ان کے سیکڑوں شاگرد ہیں۔ اعجاز رحمانی نے اپنے حوالے ہی سے کہا تھا ’’زندگی کا سفر نہیں رکتا۔ لاکھ روکو مگر نہیں رکتا‘‘۔ بظاہر اعجاز رحمانی کا دنیاوی سفر تمام ہوا اور اب اصل سفر شروع ہوا ہے۔ ان کا یہ سفر ان شاء اللہ آسان ہو گا کہ مرحوم کے ساتھ ان کے تمام چاہنے والوں کی دُعائیں ہیں اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند کرے اور ان کو جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ جس نے کہا تھا کہ ’’کون جاگے گا ہم بھی اگر سو گئے‘‘ وہ آج خود لحد میں جا سویا ہے۔