لاہور( نمائندہ جسارت)لاہور میں قائم انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سانحہ ساہیوال میں ملوث تمام سی ٹی ڈی اہلکاروں کو باآسانی بری کردیا۔انصاف کے لیے بھٹکتے متاثرین خود اپنے کیس سے دستبردار ہوگئے۔ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ارشد حسین بھٹہ نے جمعرات کو اس کیس کا فیصلہ سنایا۔ مقدے میں مقتول ذیشان کے بھائی اور مقتول خلیل کے بھائی جلیل سمیت مجموعی طور پر 49 گواہان کے بیان قلم بند ہوئے ۔عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ مقتول کے بھائی عبد الجلیل نے مقدمہ درج کرنے کی درخواست دائر کرنے سے انکار کیا جبکہ سانحہ ساہیوال کے زخمی گواہوں نے بھی ملزمان کو شناخت نہیں کیا جب کہ فوٹو گرامیٹک ٹیسٹ میں بھی ملزمان کی شناخت نہیں ہوئی۔ جائے وقوع سے ملنے والی گولیوں کے خول بھی تاخیر سے فرانزک کے لیے بھیجے گئے اورپولیس کو اسلحہ فراہم کرنے والے انچارج نے سانحہ ساہیوال کا سارا اسلحہ واپس آنے کا بیان دیا۔عدالت نے کہا کہ قانون کے تقاضے پورے کرنے کے لیے واقعے کی سفاکی اور سنگینی کے بجائے شہادت کو مدنظر رکھنا ہے۔عدالتی فیصلے میں یہ باور کرایا گیا کہ استغاثہ عینی شاہدوں کے بیانات کی روشنی میں اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا اور ان کی عدم دستیابی کے باعث میڈیکل شواہد الزام ثابت کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہوئے۔ فیصلے میں قرار دیا گیا کہ چاہے کچھ بھی ہو انصاف کے تقاضے پورے ہونے چاہییں۔عدالت نے سی ٹی ڈی اور ایلیٹ فورس کے اہلکاروں صفدر حسین، احسن خان، رمضان، سیف اللہ حسین اکبر اور ناصر نواز کودن دہاڑے شہریوں کے قتل مقدمے میں شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا ہے۔38 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت کوفیصلہ واقعے کی نوعیت پر نہیں بلکہ شواہد کی بنیاد پر کرنا ہوتا ہے اور اس مقصد کے لیے چاہے ’آسمان گر جائے لیکن عدالت کوانصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔عدالت نے یہ باور کرایا کہ گواہوں نے جائے وقوع پر گولیاں چلتی ہوئی نہیں دیکھیں، استغاثہ کے کچھ گواہوں نے بیانات دیے ہیں کہ وہ واقعہ ہونے کے بعد جائے وقوع پر پہنچنے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’واقعے کے گواہوں‘ نے ملزمان کے بری ہو جانے پر کوئی اعتراض نہ ہونے کا بھی بیان دیا ہے۔ عدالت نے یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ مقتول خلیل کے بیٹے عمیر نے بھی ملزمان کو پہچاننے سے انکار کیا اور ان کے بری ہونے پر اعتراض نہ ہونے کا بیان دیا ہے اور گواہوں کے بیانات کے بعد عدالت واقعے کے عینی شاہد نہ ہونے کے نتیجے پر پہنچی ہے۔ مقتول خلیل کے بھائی محمد جلیل نے موقف اختیار کیا ہے کہ عدالت کا فیصلہ قبول کرتے ہیں،ہم نے سارا معاملہ عدالت پر چھوڑ دیا تھا اورہم پر کوئی دباؤ نہیں تھا۔محمد جلیل کے مطابق حکومت نے بچوں کی پرورش کے لیے ہمیں پہلے 2کروڑ روپے دیے تھے اْس کے بعد ہم نے کسی سے کوئی پیسہ نہیں لیا۔یاد رہے کہ رواں سال جنوری کی سہ پہر محکمہ انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں نے ضلع ساہیوال کے قریب جی ٹی روڈ پر ایک گاڑی پر فائرنگ کی تھی، جس کے نتیجے میں خلیل، ان کی اہلیہ، بیٹی اور محلے دار ذیشان گولیاں لگنے سے ہلاک ہوئے تھے۔ کارروائی میں 3 بچے بھی زخمی ہوئے تھے۔واقعے کے بعد سی ٹی ڈی کی جانب سے متضاد بیانات دیے گئے۔ کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں پہلے واقعے کو دہشت گردوں کے ساتھ مقابلہ، پھر پہلے بچوں کی بازیابی کی کارروائی کہا گیا۔بعدازاں واقعے کی وڈیو منظر عام آنے پر مارے جانے والوں میں سے ایک کو دہشت گرد جبکہ دوسرے کو دہشت گردوں کا سہولت کار قرار دیا گیا، سی ٹی ڈی کے بدلتے بیانات، واقعے میں زخمی بچوں اور عینی شاہدین کے بیانات سے واقعہ مشکوک ہو گیا تھا۔واقعہ ذرائع ابلاغ پر آنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے اِس کا نوٹس لیا تھا اور سی ٹی ڈی اہلکاروں کو حراست میں لے کر تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی گئی۔وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ وہ واقعے میں ملوث لوگوں کو نشان عبرت بنائیں گے جب کہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ملوث اہلکاروں کو قرار واقعی سزا دینے کا اعلان کیا تھا۔واقعہ کے بعد سی ٹی ڈی کے اْس وقت کے آئی جی رائے طاہر کو عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا لیکن، چند ہی دنوں بعد اْنہیں دوبارہ آئی جی سی ٹی ڈی بحال کر دیا گیا تھا۔