نوابشاہ ،عدالت کا کرشنگ سیزن سے قبل گنے کے نرخ طے کرنے کا حکم

125

نوابشاہ (سٹی رپورٹر) سندھ ہائی کورٹ نے کرشنگ سیزن سے قبل گنے کے نرخ طے کرنے کاحکم جاری کردیا، کین کمشنر کے بار بار تبادلے پر برہمی کا اظہار کیا۔ سندھ ہائی کورٹ کے احکامات کے بعد کاشت کاروں سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ ضلع بے نظیر آباد میں قائم 4 شوگر ملز ہیں جس کی وجہ سے کاشتکار شدید پریشان ہیں، اس وقت گنے کے کاشت کار شوگر ملز مافیا کے رحم وکرم پر ہیں کیونکہ چینی کی قیمت کم کر کے گنے کے نرخ کم کروانے کے لیے حکومت پر دبائو ڈال رہی ہے۔ کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت ہمارے ساتھ ہر سال اس سلسلے میں یہی سلوک روا رکھتی ہے۔ کاشت ہر سال محنت کر کے گنے لگاتے ہیں اور پورا سال انتظار کرنے کے بعد انہیں ان جائز روزی ملنے کے بجائے کاشت کاروں کو نوازنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتی ہے، اس کھیل میں عوام کو بیوقوف بنایا جاتا ہے، کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ اس سیزن میں گنے کے نرخ طے کرنے کے لیے ابھی تک وفاقی حکومت 3 بار اجلاس طے کرنے کے بعد ملتوی کردیے ہیں۔ افسوس ہے کہ حکومت نے پہلے گنے کے کم ریٹ مقرر کرکے کسان کی دمڑی ادھیڑی پھر چینی کی زیادہ قیمت کرکے عوام کی جیبوں سے بھی پیسہ نکال لیا، پہلے کاشت کاروں کو اور پھر عوامی سطح پر بھیانک کھیل کھیلا گیا، عوام کو حکومت کے اس بھیانک کردار کو سمجھنا چاہیے کہ تبدیلی کتنی کھوکھلی ہونے کے باوجود عوام کے گھٹنوں میں بیٹھ گئی ہے۔ کاشت کار مقروض ہوگیا، زراعت کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تباہ کیا جارہا ہے لیکن کوئی اس پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں، کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ کسانوں کی محبت کی دعوے دار حکومت نے کسانوں کے بجائے شوگر انڈسٹری کے تحفظ کی جانب پہلا قدم اٹھا لیا ہے۔ چینی کی سرکاری قیمت 75 روپے کرکے نوٹیفکیشن جاری کردیا، مگر گنے کے کاشتکاروں کی بہتری پر ان کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ سات سال سے گنے کی قیمت نہیں بڑھائی گئی جبکہ زرعی inputs کئی گنا بڑھ چکی ہیں۔ شاید حکومت میں شامل ایک بڑے اسٹیک ہولڈر کو نوازنے کی بھونڈی کوشش ہے۔ شوگر انڈسٹری کے ایک شخص کے لیے ایک پاؤ گوشت کے حصول کے خاطر پاکستانی معیشت کے سالم اونٹ یعنی کسان کو معاشی طور پر ذبح کیا جارہا ہے۔ ہم حکومت کے اس اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ حکومت میں شامل شوگر مافیا کے اسٹیک ہولڈرز کو خوش کرنے کی یہ بھونڈی کوشش ہم کسان مسترد کرتے ہیں۔ کاشت کاروں نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ کیا اس وقت معاشی استحکام کی ضرورت شوگر انڈسٹری کو ہے جو 180 پر گنا خرید کر 75 روپے پر چینی بیچ رہے ہیں، کیا کسان انسان نہیں؟ شوگر انڈسٹری نامی سانپ کے گلے میں اس وقت چینی کی زیادہ قیمت کا چھچھوندر پھنسا ہوا ہے، نہ نگل سکتے ہیں، نہ اگل سکتے ہیں۔