18 اکتوبر 2019ء کو اخبارات میں وزارتِ خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل کی ہفتہ وار بریفنگ شائع ہوئی جس کے اہم نکات یہ ہیں۔ ’’بھارت کو مقبوضہ کشمیر سے واپسی کا راستہ نہیں مل رہا۔ 5 اگست کے اقدامات بھارت کو بند گلی میں لے گئے ہیں، بھارت تنہائی کا شکار ہے۔ مودی کی حکومت جارحانہ عزائم کا اظہار کرچکی ہے تاہم پاکستان کسی بھی بیرونی جارحیت کا جواب بخوبی دینا جانتا ہے۔ مودی کا پانی بند کردینے والا بیان اشتعال انگیز ہے۔ دریائے کے پانی کا بہائو معاہدے کے مطابق جاری رہنا چاہیے کیوں کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کو تین مغربی دریائوں پر حق حاصل ہے، دریائوں کا رُخ بدلنے کو جارحیت تصور کیا جائے گا، پاکستان اِس پر ردعمل دینے کا حق رکھتا ہے۔ پاکستان میں زیر حراست بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے مقدمے اور سزا پر نظرثانی کا عمل شروع ہوگیا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ دوسری جانب اِسی روز کے اخبارات میں یہ خبر بھی موجود ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی ختم کردی ہے۔ قانون ساز اسمبلی کے سیکرٹری سمیت 16 رکنی عملے کو 22 اکتوبر تک جی اے ڈی کو رپورٹ کرنے کا حکم، تمام گاڑیاں، فرنیچر اور سرکاری ریکارڈ کو محکمہ قانون و انصاف کے سپرد کرنے کی ہدایت‘‘۔ علاوہ ازیں19 اکتوبر کے اخبارات میں بھارتی وزیراعظم مودی کا ایک انتخابی ریلی سے خطاب بھی شائع ہوا جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ’’ہم بھارتی فوج کو دنیا کی طاقتور ترین فوج کے برابر لے آئے ہیں۔ دریائوں کا رُخ موڑنے اور پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے 3 لاکھ کروڑ روپے خرچ کیے جائیں گے، اگلے 5 سال میں جل جیون مشن کے تحت پانی پر سب سے زیادہ زور لگائوں گا۔
’’پاک بھارت کشیدگی‘‘ کے حالیہ منظرنامے کا اگر ہم مکمل جائزہ لیتے ہیں تو بھارت کی سیاسی اور فوجی لیڈر شپ پیش قدمی کرتے ہوئے جب کہ ہماری ’’قومی قیادت‘‘ پسپا ہوتے ہوئے نظر آرہی ہے۔ وزارتِ خارجہ اور وزیراعظم کے بیانات میں اب تک الفاظ کی جنگ تو خوب لڑی گئی مگر عملاً مقبوضہ کشمیر کے ایک انچ کو بھی آزاد نہ کرایا جاسکا بلکہ اب تو صورتِ حال تشویش ناک سے زیادہ شرمناک ہوتی جارہی ہے جس کا اگر مرحلہ وار جائزہ لیا جائے تو کچھ یوں ہوگا۔
(1) 27 فروری 2019ء بھارت کے دو مگ جہازوں نے آزاد کشمیر کے اندر حملہ کیا، ہمارے شاہینوں نے دونوں جہاز گرائے اور دو پائلٹ گرفتار کرلیے۔ ایک پائلٹ ابھے نندن کو 24 گھنٹے کے اندر اندر واہگہ بارڈر سے واپس بھیج دیا گیا۔ دوسرے پائلٹ کے بارے میں خبر تھی کہ وہ اسرائیلی ہے، اُس پر پُراسرار خاموشی اختیار کرلی گئی، حالاں کہ امریکا، اسرائیل اور بھارت گٹھ جوڑ ثابت کرنے کا یہ بہترین موقع تھا۔ قوم کو آج تک نہیں بتایا گیا کہ دوسرے حملہ آور پائلٹ کی شناخت کیا تھی اور وہ کہاں گیا۔ یقینا اسرائیل کو واپس بھیج دیا گیا ہوگا؟۔ ناکام فضائی حملے کے بعد بھارت کی ایک آبدوز بھی جنگی مقاصد لیے 3 مارچ 2019ء کو پاکستان کی سمندری حدود میں داخل ہوئی تاہم یہاں بھی پاکستان نیوی نے آبدوز کو بھارت واپس جانے دیا۔ بھارت ائر فورس اور نیوی کے یہ دونوں حملے جنگی جرائم کے زمرے میں آتے تھے جن پر بین الاقوامی قوانین کے مطابق مقدمہ چلنا چاہیے تھا مگر وزیراعظم عمران خان نے یکطرفہ جذبہ خیر سگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کو دبائو میں لانے اور عالمی سطح پر بدنام کرنے کا موقع گنوایا۔
(2) نریندر مودی نے دوسری مدت کے لیے بھارت کے وزیراعظم کا حلف اُٹھانے کے بعد وزیراعظم عمران خان کے جذبہ خیر سگالی کا جواب یوں دیا کہ 5 اگست 2019ء کو بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے اُسے بھارت کا حصہ قرار دے دیا گیا۔ پاکستانی قیادت نے خوب دھمکیاں دیں، ریلیاں نکالیں، وزیراعظم جنرل اسمبلی میں چیخے چلائے مگر یہ تمام بھاگ دوڑ مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانا تو درکنار محض وہاں سے کرفیو تک ختم نہ کراسکی۔ عالمی برادری سے ہر روز اپیلیں کی جارہی ہیں تاہم او آئی سی کا اسلام آباد میں وزرائے خارجہ تک کا اجلاس نہ بلایا جاسکا۔ پاکستان کی ’’شہ رگ‘‘ (مقبوضہ کشمیر) کے رہائشی پاکستان کے محافظوں سے ’’فوجی مدد‘‘ مانگ رہے ہیں مگر جنرل صاحبان کہتے ہیں کہ آپ فکر نہ کریں ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، قوم یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ہمارے جنرل صاحبان ساتھ کھڑے ہونے اور مدد کرنے کے فرق کو کیوں سمجھ نہیں پارہے؟۔ وزیراعظم عمران خان صاحب کا معاملہ بھی عجیب ہے، وہ ایک طرف مودی کو للکارتے ہیں اور دوسری طرف کرتارپور راہداری کھلوا رہے ہیں۔ کیا مقبوضہ کشمیر کے عوام کے بند دروازے کھل گئے کہ اب کرتارپور راہداری کا پھاٹک کھولا جارہا ہے۔
(3) ’’پاکستانی قیادت‘‘ بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کی بات کررہی ہے۔ مگر قوم یہ معلوم کرنا چاہتی ہے کہ یہ منہ توڑ جواب کب اور کہاں دیا جائے گا۔ ہماری حالت تو یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ محض سفارتی تعلقات بھی توڑے نہ جاسکے تو مزید محاذ آرائی کون کرے گا؟۔ صدر مملکت عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے بازوئوں پر کالی پٹیاں باندھتے ہوئے نظر آرہے ہیں، حالاں کہ صدر پاکستان جو مسلح افواج کا سپریم کمانڈر بھی ہے اُسے فوجوں کو ’’کنٹرول لائن‘‘ عبور کرنے کا حکم دینا چاہیے تھا، جب کہ وزیراعظم اگلے مورچوں پر کھڑے دشمن کی نقل و حرکت کا معائنہ کرتے ہوئے دکھایا جاتا۔ قوموں کی قیادت اور آزادی کی حفاظت غیرت کے ساتھ کی جاتی ہے اپیلوں اور احتجاج سے نہیں۔
(4) وزارتِ خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل کہہ رہے ہیں کہ بھارت کو مقبوضہ کشمیر سے واپسی کا راستہ نہیں مل رہا، حالاں کہ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کو مقبوضہ کشمیر میں داخل ہونے کا راستہ نہیں مل رہا۔ بھارت تو مسلسل پیش قدمی کرتا آرہا ہے۔ ترجمان نے مزید فرمایا کہ ’’بھارت تنہائی کا شکار ہے‘‘ حقائق اِس بات کی بھی تصدیق نہیں کررہے۔ ’’مقبوضہ کشمیر‘‘ کو بھارت کا حصہ قرار دینے سے لے کر آج تک بھارتی وزیراعظم یا وزیرخارجہ نے عالمی برادری سے کوئی اپیل نہیں کی بلکہ ثالثی کی پیشکش کرنے والوں کو بھی صاف انکار کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے، جب کہ ہماری قیادت خدا سے کم عالمی برادری سے زیادہ اپیلیں کررہی ہے، تاہم یہاں بھی ناکامی ہے، جس کا ثبوت یہ ہے کہ جن کی دوستی کا دم بھرتے ہیں اور ’’ثالث یا سہولت کار‘‘ بنے پھر رہے ہیں اُن سے (امریکا، سعودی عرب، ایران) اتنا کام بھی نہ لے سکے کہ اُن کا وزیرخارجہ ہی نیو دہلی کے دورے پر چلا جاتا اور وزیراعظم مودی کو مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر ردعمل دیتا؟۔
(5) دریائوں کا رُخ بدلنے اور پاکستان کا پانی روکے جانے کے عزائم پر ردعمل دیتے ہوئے ہماری وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے یہ جو کہا کہ اس کے اقدام کو جارحیت تصور کیا جائے گا۔ تو اِس حوالے سے ضروری تھا کہ وزارتِ خارجہ کا ترجمان بھارت کی ممکنہ ’’آبی جارحیت‘‘ کی صورت میں پاکستان کی جوابی کارروائی کی بھی وضاحت کردیتے۔ کیوں کہ بھارت تو مسلسل جارحیت اور پیش قدمی کرتا آرہا ہے۔ قوم اِس سوال کا واضح جواب چاہتی ہے کہ کیا مودی سرکار کی ممکنہ ’’آبی جارحیت‘‘ کو روکنے کے لیے ’’سرجیکل اسٹرائیک‘‘ کا دو ٹوک اعلان ہوگا کہ جس کے ذریعے پاکستان کا پانی روکنے والے ڈیم توڑ کر ریزہ ریزہ کردیے جائیں گے یا یہاں بھی محض ’’منہ توڑ جواب دینے‘‘ کی بات کرکے منہ پھیر لیا جائے گا؟۔
(6) کلبھوشن یادیو کے مقدمے اور سزا پر نظرثانی کا عمل شروع کرنے کی جو خبر وزارتِ خارجہ کے ترجمان موصوف دے رہے ہیں، ایسا عمل کہاں اور کون سی عدالت میں شروع کیا جارہا ہے۔ اس کی بھی وضاحت کردینی چاہیے تھی، آثار ایسے نظر آرہے ہیں کہ جیسے وزیراعظم عمران خان کا جذبہ خیر سگالی بھی ’’گیدڑ کی سو سالہ زندگی‘‘ کی خواہش کے مترادف ہے جس کے تحت بھارتی جاسوس کی زندگی اور آزادی کے لیے راستہ بنایا جارہا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ پاک بھارت حالیہ کشیدگی میں اسلام آباد کے مقابلے نیو دہلی زیادہ جارحانہ عزائم اپنائے ہوئے ہے جب کہ ہماری ’’قیادت‘‘ انتظار اور خوف کے درمیان کھڑی پسینہ پونچھ رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر اب بھارتی کشمیر بن چکا ہے۔ ’’مسئلہ کشمیر‘‘ ہمارے حکمرانوں اور وزارتِ خارجہ کی وجہ سے نہیں بلکہ مقبوضہ وادی کی مظلوم عورتوں اور زخمی بچوں کی آہ و بکا کی وجہ سے زندہ رہے گا اور وہ بھی تب تک جب تک مقبوضہ وادی میں زندگی باقی رہے گی۔ ہم کسی بھی مرحلے پر مظلوم و محکوم کشمیری بہن بھائیوں کی مدد کرنے سے قاصر رہے۔ یاد رہے کہ 9 ماہ کی خانہ جنگی کے بعد مشرقی پاکستان ٹوٹ گیا تھا جب کہ حالیہ پاک بھارت کشیدگی جو 27 فروری سے شروع ہوئی تھی اُس کو بھی اکتوبر 2019ء میں 9 ماہ ہونے کو آئے ہیں اور اس دوران ’’مقبوضہ کشمیر‘‘ کو بھارت کا حصہ قرار دے دیا گیا۔ بہرحال ہماری وزارت خارجہ کی مذکورہ پریس بریفنگ میں جس طرح کی صورتِ حال بیان کی گئی ہے وہ اطمینان بخش ہونے کے بجائے شرمناک ہے کہ ہم کس طرح سے جھوٹ بول رہے ہیں اور اپنی ہی قوم کو دھوکا دے رہے ہیں۔