توپھر اسمبلیاں تحلیل کر دیں

361

گزشتہ منگل کو وزیر اعظم عمران خان کی صدارت میں کابینہ کا اجلاس ہوا جس میںمزید 6 قوانین کو آرڈیننس کے ذریعے نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ انگریزی روز نامہ ڈان کے مطابق ان آرڈیننسوں کی تعداد 8 ہے ۔ ان میں نیب آرڈیننس میں ترمیم بھی شامل ہے جس کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ ترمیم ان ’’ ہائی پروفائل‘‘ قیدیوں کے حوالے سے کی گئی ہے جن کا تعلق اپوزیشن سے ہے ۔آرڈیننس 6 ہوں یا آٹھ ، بنیادی سوال یہ ہے کہ اسمبلیاں کس مرض کی دوا ہیں ۔ قانون سازی یا کسی قانون میں ترمیم کا معاملہ قومی اسمبلی میں پیش کیوں نہیں کیا جاتا۔ کیا عمران خان اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اسمبلی میں چورں ، ڈاکوئوں کا راج ہے جیسا کہ انہوں نے اقتدار میں آنے سے پہلے بارہا کہا اور طویل عرصے تک اسمبلی کا بائیکاٹ بھی کیا ۔ صدارتی آرڈیننس تو اس وقت نافذکیے جاتے ہیں جب اسمبلیاں موجود نہ ہوں ۔ یہ کام آمریت کے دور میں ہوتا ہے ۔ جب آمروں کو خدشہ ہوتا ہے کہ جمہوری طریقے سے ان کے احکامات کو پزیرائی حاصل نہیں ہو گی ۔ یہی طریقہ آمرانہ کہلاتا ہے ۔ مگر جب ملک میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ادارے موجود ہیں تو آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی کا کوئی جواز ہی نہیں ۔ کیا اس طرح عمرانی حکومت یہ ثابت نہیں کر رہی کہ وہ بھی آمروں کے نقش قدم پر چل رہی ہے ۔ آمر پرویز مشرف ویسے بھی عمران خان کے پسندیدہ تھے اور اب ان کی ٹیم میں بھی پرویز مشرف کی باقیات شامل ہیں ۔ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید گو کہ تحریک انصاف میں شامل نہیں لیکن عمران خان کی کابینہ کے رکن تو ہیں ۔ وہ تو آمر پرویز مشرف کے ترجمان بھی رہے اور ان کی طرف سے قوم کو امریکا سے ڈرانے کے کام پر مامورتھے۔ وہ پرویز مشرف کے ترجمان کے علاوہ وزیر ریلوے بھی رہے اور عمران خان نے بھی انہیں وزارت ریلوے سونپ دی ۔ عمران خان اپنے اورآمرانہ دور میں کچھ تو فرق کریں جسے وہ جمہوری دور کہتے ہیں۔ جب اسمبلیوں کو نظر انداز کر کے آرڈیننسوں ہی سے کام چلانا ہے تو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں تالا ڈلوا دیں ۔ ویسے بھی قومی اسمبلی میں کوئی کام نہیں ہو رہا اور آرڈیننس جاری کرنے سے ان کا کوئی جواز نہیں رہا ۔ اس سے پہلے بڑی خاموشی سے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (P.M.D.C) کو تحلیل کر دیا گیا اور اس کی جگہ پاکستان میڈیکل کمیشن آرڈیننس 2019ء جاری کر دیا گیا ۔ اس آرڈیننس کے ذریعے پرائیویٹ میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں کو لا محدود اختیار دیے جارہے ہیں اور وہ اپنی مرضی سے فیسیں وصول کریں گے ، ٹیسٹ میں طلبہ کو اپنی صوابدید پر نمبر دیے جائیں گے ۔ ظاہر ہے کہ یہ کام بڑی رقم وصول کیے بغیر نہیں ہوگا ۔ اس سے پہلے ڈاکٹر عاصم نے پی ایم ڈی سی میں من مانی کر کے ادارے کو نقصان پہنچایا اور اب رہی سہی کسر عمرانی حکومت پوری کرنے والی ہے ۔ یہاں بھی یہی سوال ہے کہ پی ایم ڈی سی توڑ کر پی ایم سی بنانے کے لیے کس سے مشورہ کیا گیا ۔ کیا یہ معاملہ قومی اسمبلی میںلایا گیا یا ’’ چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں‘‘ کے مصداق اسمبلیاں محض بدنام کی جا رہی ہیں ۔ مذکورہ آرڈیننس کے تحت 5 کروڑ روپے سے زیادہ کی کرپشن کے ملزم کو جیل کی سی کلاس میں رکھا جائے گا ، ویسے تو کرپشن کی حد اور جیل میں مخصوص کلاس دینے کا فیصلہ ہی احمقانہ ہے کہ اصولاً تو ہر بد عنوان شخص کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے ۔ لیکن کیاجس نے چار کروڑ 99 لاکھ روپے کی کرپشن کی ہو اس کو بی کلاس ملے گی ۔ یہ ترمیم بھی ان سیاسی رہنمائوں کے لیے لائی گئی ہے جو اس وقت جیلوں میں ہیں مثلاً میاں نواز شریف ، آصف زرداری ،خورشید شاہ ، حمزہ شہباز ، سعد رفیق اور شاہد خاقان عباسی وغیرہ ۔ ان میںکئی ایسے ہیں جن کے بارے میں کئی ماہ گزرنے کے باوجود الزامات ثابت نہیں کیے جا سکے ۔ محض ریفرنس چل رہے ہیں ۔ نواز شریف کو بھی اب تک کی تحقیقات کے مطابق محض دبئی کااقامہ رکھنے اور اپنے بیٹے سے لی گئی وہ تنخواہ ظاہر نہ کرنے کا الزام ہے جو انہوں نے وصول ہی نہیں کی ۔عمران خان 500 افراد کو گرفتار کرنے کی خواہش کا اظہار کر چکے ہیں ۔ یہ تعداد پوری کرنے کے لیے بھی کوئی آرڈیننس جاری کر دیا جائے ، صدر مملکت دستخط فرماد یں گے کہ ان کا کام اتنا ہی ہے ۔