خرابی عدالت کے گمراہ ہونے میں ہے

925

چیف جسٹس پاکستان نے عدالتی نظام کی خرابی کا مسئلہ حل کردیا ہے اور بتایا ہے کہ جھوٹے گواہوں نے نظام عدل خراب کردیا ہے۔ چھوڑیں گے نہیں۔ گواہ عدالت کو گمراہ کرتے ہیں۔ یہ ریمارکس سرگودھا کے ایک مقدمہ قتل میں جھوٹی گواہی کی وجہ سے ایک ملزم کو سزا دلوائے جانے کے معاملے میں دیے گئے۔ عدالت نے ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی کالعدم قرار دے دیا۔ لیکن یہ کیا پہلا جھوٹا گواہ تھا؟ ان جھوٹے گواہوں کے بل پر تو عدالتوں کا سارا نظام کم و بیش نصف صدی سے چل رہا ہے۔ وکیل، جج، پولیس، مدعی، ملزم سب یہ سوال کرتے ہیں کہ… گواہ کا انتظام ہے ناں… اور گواہ موجود ہوتا ہے۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ گواہ عدالت کو گمراہ کرتے ہیں، خرابی یہ ہے کہ عدالت جھوٹے گواہ کی گواہی سے گمراہ ہوجاتی ہے۔ گویا خرابی گواہوں کے جھوٹے ہونے میں نہیں، کہیں اور ہے۔ بہرحال چیف جسٹس نے عدالتی نظام کی خرابیوں میں سے ایک خرابی کی نشاندہی کی ہے لیکن یہ ایک زنجیر ہے اس میں پولیس، وکیل اور جج سب شامل ہیں، پولیس کے پیشہ ورگواہ تو ہر وقت عدالت میں گھوم رہے ہوتے ہیں۔ اچانک پکڑ کر لایا جاتا ہے یا اس دوران کسی اور مقدمے میں اسی وقت پر ہونے والے کسی اور وقوع کے گواہ بن کر پیش ہورہے ہوتے ہیں۔ کیا ججوں نے ان گواہوں کو پہلے نہیں دیکھا ہوتا؟ اور آج کل تو کمپیوٹر کا زمانہ ہے گواہوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہوگا۔ اس کی اسکروٹنی تو عدالت کو کرنی چاہیے کہ یہ صاحب کب سے گواہیاں دے رہے ہیں۔ اگر پچاس برس قبل دس پندرہ جھوٹے گواہوں کو عمر قید کی سزا سنادی گئی ہوتی اور عملاً انہیں عمر قید کی سزا بھی دلوائی جاتی تو آج چیف جسٹس کو یہ ریمارکس نہ دینے پڑتے۔ چیف جسٹس جھوٹے گواہوں کا پیچھا ضرور کریں لیکن ان ججوں کا بھی احتساب کریں جو جھوٹے گواہوں سے گمراہ ہوجاتے ہیں۔ ان جھوٹے گواہوں میں سے بیشتر کی تعلیمی اور علمی صلاحیت ججوں کے مقابلے میں کچھ نہیں ہوتی۔ ججوں میں اتنی صلاحیت تو ہونی چاہیے کہ جھوٹ اور سچ میں فرق کرسکیں۔ ورنہ نظام عدل کی عمارت ہی دھڑام سے گر جائے گی۔