ہم لشکر عثمانیہ۔ ہم علم کے راہی

661

اقبال کی شاعری میں نوجوانوں کو مخاطب بھی کیا گیا ہے اور ان کے لیے پیغامات بھی ہیں لیکن بہت کچھ اُن کی تربیت کرنے والوں کے لیے بھی ہے جیسے کہتے ہیں کہ
خودی کی پرورش و تربیت پہ ہے موقوف
کہ مشت خاک میں پیدا ہو آتش ہمہ سوز!
یہ ہی ہے سرِ کلیمی ہر اک زمانے میں
ہوائے دشت و شعیب و شبانی شب و روز!
کہ انسان خاک کا پتلا ہے لیکن اس میں آگ کی خاصیت پیدا ہوسکتی ہے ایسی آگ جو ہر باطل کو گھاس پھونس کی طرح جلا کر بھسم کردے۔ لیکن یہ ایسی صورت میں ہے جب اس کی خودی کی تربیت کی جائے۔ کلیمی کا بھید ہر زمانے میں ایک ہی رہا ہے کہ بیاباں کی ہوا ہو سیدنا شعیبؑ جیسا اللہ کا چنا ہوا بزرگ تعلیم و تربیت کرے اور انسان دن رات گلہ بانی کرے۔ کلیمی کا مطلب ہے ایمان اور عمل کی ایسی کیفیت پیدا کرلیتا جیسی موسیٰ میں تھی۔ جو فرعون جیسے جابر اور ظالم حکمران کو جانتے ہوئے اس کے سامنے حق بات لے کر کھڑے ہوئے۔ غلام قوموں کے لیے آزادی اور عزت کی زندگی کا حصول آسان نہیں ہے۔ سیدنا موسیٰؑ کی زندگی ایک مثال ہے۔ وہ محل میں رہتے تھے شاہی گھرانے کے فرد کی حیثیت حاصل تھی لیکن انہوں نے جب حق کو پالیا تو اس آرام اور آسائش کی زندگی سے کنارہ کش ہوگئے مدین میں ایک دیہاتی زندگی گزارنا قبول کیا اللہ نے انہیں سیدنا شعیبؑ جیسا استاد عطا کیا۔ برسوں اس حال میں بھیڑ بکریوں کی گلہ بانی کی۔
گویا خودی کا حصول آسان نہیں نہ اس کا راستہ سہل ہے لیکن جو اس راستے پر چل نکلتا ہے وہ مومن کہلاتا ہے۔ اور مومن کے مقام کی نہ کوئی حد ہے نہ کوئی سرحد۔
مومن کے جہاں کی حد نہیں ہے
مومن کا مقام ہر کہیں ہے
مختار مسعود آواز دوست میں کہتے ہیں اگر خدادا صلاحیت موجود ہو اور اس کی تربیت ارسطو اور لیونی ڈس جیسے اساتذہ کے ہاتھوں ہوجائے تو اس کا دنیاوی معاملات میں سوچنے کا اندازہ بالکل بدل جاتا ہے۔ کہنے کی بات آج یہ ہے کہ اب نہ تو سیدنا شعیبؑ جیسے استاد کا زمانہ ہے نہ ارسطو اور لیونی ڈس جیسے اساتذہ میسر ہیں لیکن پھر بھی اگر طلبہ و طالبات میں سوچ کا انداز بدلہ ہوا نظر آئے تو کہا جائے گا کہ یہ ’’عثمان اسکول سسٹم‘‘ کے اثرات ہیں۔
پچھلے ہفتے عثمان اسکول سسٹم کے پوزیشن ہولڈر طلبہ و طالبات کے اعزاز میں منعقد کی گئی تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ شاداب چہروں اور درخشاں پیشانیوں کے ساتھ ایک کے بعد ایک اعلیٰ نمبروں کے ساتھ طلبہ و طالبات اپنے ایوارڈ حاصل کررہے تھے۔ مسلم تہذیب اور ثقافت کے مکمل اظہار کے ساتھ پراعتماد قدموں سے جب وہ آگے بڑھ رہے تھے تو انہیں دیکھتے ہوئے میں نے سوچا۔ کھلی آنکھوں سے ایک خواب دیکھا کہ زندگی کے دریا میں ایسے خوب روشناور جب اتریں گے تو کیا کیا کچھ نہ بدلے گا۔ انہوں نے زندگی میں جو کچھ حاصل کیا ہے۔ یعنی اعلیٰ تربیت کی صنّاعی سے مزئین زندگی کا عطیہ جس کا کم سے کم حق ادا کرنے کی واحد صورت یہ ہے کہ دوسروں کو اس میں حصہ دار بنالیا جائے۔ ابھی انہیں زندگی میں بہت کچھ حاصل کرنا ہے لیکن سب سے اہم جرأت اور بہادری ہے جو خودی کے پرورش سے پھلتی پھولتی ہے۔ دراصل خودی کے برگ و بار میں ہی سے ایک جرأت و بہادری ہے۔ وہ یاد ہے نا ہالینڈ کا چھوٹا سالڑ کا جو سردیوں کی ایک شام سمندری پشتے کے پاس سے گزر رہا ہے کہ اس کی نظر ایک سوراخ پر پڑی اس نے سوچا اور عمل کرلیا۔ سوچا کہ جتنی دیر میں جا کر گائوں والوں کو مطلع کروں گا اتنی دیر میں یہ سوراخ ایسے شگاف میں بدل جائے گا جس سے پانی کا زور سارے گائوں اور کھیت کھلیان کو غرق کردے گا سو وہ وہاں اس سوراخ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا اور پھر بیٹھی بیٹھے اسی حالت میں سو گیا۔ سردی نے اُس کے ننھے نرم و نازک جسم کو اکڑا دیا صبح ہوئی تو لوگوں نے اس لڑکے کی حالت دیکھ کر اُسے اپنا محسن مانا۔ جرأت و بہادری ایک احساس اور ایک کیفیت کا نام ہے۔ اس احساس اور کیفیت کی گواہی عملی قربانی سے نہ دی جائے تو بات صرف بات رہ جاتی ہے۔ اور بات کا اثر عمل کے اثر کے مقابلے میں وقتی ہوتا ہے۔
یہ دنیا جس میں ہر فرد اپنے فائدے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں کہ دوسروں کے لیے اپنی زندگی لٹا دیتے ہیں نقد جان دے کر وہ قربانی کی ایسی مثال بن جاتے ہیں کہ زندگی کا سارا خسارہ کہیں پیچھے ہی رہ جاتا ہے۔ عثمان پبلک اسکول کے ہاں تو ’’نصر اللہ شجیع‘‘ جیسے شجیع استاد کی مثال موجود ہے جو دنیا کے ہر استاد کے لیے رول ماڈل ہیں۔ دریائے کنہار کے کنارے اپنے ایک طالب علم کو بچانے کے لیے تیز و تند دریا کی موجوں سے لڑنے کے لیے بے خطر کود پڑے۔ وہ ایک بہادر جری رہنما اور استاد کا فیصلہ تھا، انہیں یقین تھا کہ وہ اللہ نے چاہا تو اُسے بچالیں گے ورنہ جرأت اور قربانی کی مثال بن جائیں گے۔
یقین افراد کا سرمایہ تعمیر ملت ہے
یہی قوت ہے جو صورت گر تقدیر ملت ہے
جرأت ایک طرز اختیار کا نام ہے اور قربانی چھوڑ دینے کا راستہ ہے کبھی دولت کبھی شہرت اور کبھی زندگی۔ اس اختیار اور ترک کردینے میں بسر ہو تو زندگی جہاد اور موت شہادت کہلاتی ہے۔ جناب حاطب صدیقی صاحب نے تو عثمان اسکول سسٹم کا ترانہ بھی کیا خوب لکھا ہے۔
ہم لشکر عثمانیہ ہم علم کے راہی
ایماں کے مجاہد ہیں عمل کے ہیں سپاہی