جمعیت علماء اسلام کے صدر مولانا فضل الرحمن ایک ایسے وقت میں پی ٹی آئی کی ایک سالہ حکومت کے خلاف ’’آزادی مارچ‘‘ کے نام سے تیاری پکڑ چکے ہیں۔ جب بھارت کی ہندو قوم پرست حکومت نے مقبوضہ کشمیر کو زبردستی کنٹرول کرنے کے بعد آزاد کشمیر کی طرف جارحانہ کارروائیوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ قوم سوچ رہی ہے کہ جمعیت علماء اسلام کے صدر مولانا فضل الرحمن نے موجودہ پاک بھارت کشیدگی اور کشمیر میں بھارتی فوج کی چڑھائی کے موقع ہی کو کیوں اپنے احتجاج کا بہترین وقت جانا۔
مولانا فضل الرحمن عالم بھی ہیں اور مفتی محمود مرحوم کے صاحبزادے بھی، وہ قومی اسمبلی کے رکن بننے کے بعد زیادہ عرصہ کشمیر کمیٹی اور خارجہ امور کمیٹیوں رہ چکے ہیں۔ یقینا وہ دیگر سیاسی شخصیات سے زیادہ کشمیر کے حالات سے واقف ہوںگے۔ وہ اگرچہ وزیراعظم عمران خان سے عمر میں ایک سال چھوٹے ہیں مگر سیاست میں ان کا تجربہ عمران خان سے زیادہ ہے۔ مولانا دینی معاملات میں بھی عمران خان سے زیادہ ہے۔ لیکن وزیراعظم عمران نے اپنی ایک سالہ حکومت میں اقوام متحدہ میں خطاب کرکے جو کچھ کیا اس کی تعریف تو ملک کے ممتاز علماء کرام اور مفتی تقی عثمانی، مفتی طارق جمیل، مفتی طارق مسعود اور دیگر بھی کررہے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ وہ مولانا فضل الرحمن کے مقابلے کے سیاستدان ہیں۔ ممتاز بین الاقوامی شہرت یافتہ صحافی و بی بی سی وابستہ کالم نویس وسعت اللہ خان اپنے حالیہ ریڈیو کالم میں کہتے ہیں کہ ’’مولانا نے ابھی آزادی مارچ کا صرف اعلان کیا ہے اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن جیسی تجربہ کار جماعتوں کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ کرنا کیا ہے، جانا ہے کہ آنا ہے یا جاکر آنا ہے، تھوڑا سا آگے جاکر آنا ہے یا پھر آنا جانا ہے‘‘۔ وسعت کہتے ہیں کہ ’’پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو بھی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ مولانا کا چہرہ اتنا پرسکون اور باڈی لینگویج اتنی بااعتماد کیوں ہے، حکومتی وزراء یہ جاننے کے لیے اندھیرے میں تیر چلا رہے ہیں کہ مولانا کے ہاتھ میں ایسی کیا گیدڑ سنگھی ہے کہ وہ لچکدار سیاست کا راستہ چھوڑ کر تصادم کی سیاست کے راستے پر چل نکلے ہیں‘‘۔ یہی سوال کئی دیگر لوگوں کے اذہان میں بھی اچھل کود کررہا ہے۔ کچھ دانشورانہ دماغ کے لوگ ایک ہی جھٹکے میں یہ کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ ’’سب ایجنسیوں کا کھیل تماشا ہے‘‘۔ لیکن بہت سے سیاسی لوگ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ مولانا کے آزادی مارچ کی پشت پر اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے۔ کیونکہ ان کا ماننا تو صرف یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ تو حکومت کے ساتھ ہے۔ وہ ہاتھ اور پیر کی طاقت سے حکومت کو چلا رہی ہے کیونکہ یہ اس کی مجبوری ہے۔
مگر مجھے شبہ ہورہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا ایک دھڑا مولانا کے مارچ کا حامی ہے۔ جبکہ بڑا اور طاقتور حصہ مولانا کے حکومت کے خلاف شور شرابے کا مخالف ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی اب تک کی سیاست سے تو یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اس مارچ کا کوئی خاطر خواہ مقصد حاصل نہیں ہوسکے گا۔ بلکہ وہی کچھ ہوگا جو اس مارچ کے نتیجے میں پانی سر سے گزرتا ہوا دیکھ کر ’’خلائی مخلوق‘‘ چاہے گی۔ مطلب خلائی مخلوق کو چونکہ موجودہ حکومت کی تخلیق کار کہا جاتا ہے اس لیے اس بات کا دور دور تک کوئی امکان تک نظر نہیں آتا کہ کوئی تخلیق کار ادارہ اپنے ہی شاہکار کو ایک ہی سال میں توڑ ڈالے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر مولانا یہ شو کیوں کررہے ہیں۔ اس کا سیدھا سا جواب تو یہی ہے کہ چونکہ موجودہ منتخب قومی اسمبلی میں جے یو آئی کے 16 اراکین اور سینیٹ میں چار سینیٹرز ہیں مگر ان میں مولانا فضل الرحمن نہیں ہیں۔ مطلب پارٹی لیڈر ہی شو سے غائب۔ ذرا تصور کیجیے مولانا پر کیا بیت رہی ہوگی کہ ان کے اپنے نامزد کردہ چہرے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ایوان میں موجود ہیں مگر انہیں یہاں کوئی نشست نہیں مل سکی۔ مولانا فضل الرحمن اپنے ہی حلقے ڈی آئی خان سے ہار گئے تھے انہیں شکست دینے والے علی احمد گنڈا پور ہیں۔ ایسے میں مولانا کو اپنی لیڈر شپ میں خامی کا بھی احساس ہوتا ہوگا اور شاید اسی احساس کی وجہ سے مولانا نے آزادی مارچ کا فیصلہ کیا ہے اور بقول شاعر ’’اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے۔ پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے‘‘۔ کہہ کر مولانا نے مارچ کا پروگرام بنالیا ہوگا۔
جے یو آئی ف اور اس کے لیڈر فضل الرحمن کو طالبان کا حامی بھی کہا جاتا ہے لیکن وہ طالبان کے حامی ہوں یا نہ ہوں انہوں نے اس احتجاج کی تیاریوں کے دوران جس فورس کے رکھنے کا مظاہرہ کیا نجانے کیوں مجھے وہ مولانا کی بڑی غلطی لگتی ہے۔ اس سے دنیا کو جو پہلے ہی مسلمانوں پر اسلامی دہشت گرد کا الزام لگانے کا موقع ڈھونڈتی ہے کو مزید باتیں کرنے کا موقع ملے گا۔ کیا مولانا اس غلطی پر واضح موقف دے سکیں گے؟ کیا مسلمانوں کے خلاف سازش کرنے والے اس غلطی سے اپنے ناپاک عزائم پورے نہیں کریں گے؟ مولانا فضل الرحمن کو اس نکتے کو سامنے رکھ کر آزادی مارچ کے لیے آگے بڑھتے ہوئے بہت احتیاط کرنا ہوگی۔