حالات کی خرابی حکومت کی غیر دانشمندی

826

حالات کی خرابی حکومت کی غیر دانشمندی ابھی 27 اکتوبر دور ہے لیکن حکومتی صفوں میں ہلچل سے ایسا محسوس ہورہا ہے کھ وہ 31 اکتوبر سے قبل ہی کوئی کام کروادینا چاہتے ہیں۔ جو کام نواز شریف کے خلاف عمران خان نے کیا وہی کام مولانا فضل الرحمن عمران خان کیخلاف کررہے ہیں۔ لیکن حکومت کا رویہ نہایت جارحانہ ہے اس کا سبب غصہ بھی ہوسکتا ہے اس کا ایک سبب حکومت جانے کا خوف بھی ہوسکتا ہے۔ حکومت میں آنے کی خواہش تو ہر سیاسی جماعت کو ہوتی ہے لیکن ایسی صورتحال کا سامنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں جس میں تمام سیاسی جماعتیں ایک صفحے پر نظر آئیں اور وہی میڈیا جو کل تک خان صاحب کو وزیراعظم بنوانے میں پیش پیش تھا اب مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ اور عمران خان کی اپنے دھرنوں کے موقع پر تقاریر کے کلپ نکال نکال کر دکھا رہا ہے اور موازنہ کررہا ہے۔ یہ موازنہ بھی عمران خان کیخلاف فضا بنانے کا کام کررہا ہے لیکن حکومت کے اقدامات اور وزراء کے بیانات تو جلتی پر تیل کا کام کررہے ہیں اور حکومت نتائج سے بے پروا ہے یا اس نے آنکھیں بند کرلی ہیں۔ غصہ بہت سے غلط کام کرواتا ہے۔ جے یو آئی کی تنظیم انصار الاسلام کیخلاف ایک سوشل میڈیا مہم کے بعد اس کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ ایسا قدم ہے جس کے بعد صرف اسلام آباد میں ہونے والا احتجاج پورے ملک میں پھیل جائے گا اور جو کام صرف اسلام آباد میں ہوتا اب حکومت کو پورے ملک میں اس سے نمٹنا ہوگا۔ اسی طرح مولانا فضل الرحمن کو نظر بند کرنے کی باتیں بھی اب حکومت کے گلے پڑیںگی۔ میڈیا کے ذریعے بھی حالات بگاڑنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ایک دن اخبارات میں خبر تھی کہ اسلام آباد میں فوج کو کنٹرول دینے کا فیصلہ کرلیاگیا ہے لیکن دو دن بعد کسی حلقے سے دبائو کے بعد اس کی تردید کرنی پڑی اور یہ خبر شائع کی گئی کہ اسلام آباد کو فوج کے سپرد کرنے پر غور ہی نہیں کیاگیا۔ چونکہ باز پرس کا کوئی نظام نہیں ہے اس لئے جو چاہو چلا دو پوچھتا کون ہے۔ لیکن یہ سوچنا حکومت کا کام ہے کہ اس کے غیر محتاط اقدامات سے صرف ملک کے حالات خراب نہیں ہوںگے بلکہ حکومت کے لیے بھی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ اگر حکومت انصار الاسلام پر پابندی لگا دے تو اس کا جواز کیا ہے۔ کیا یہ تنظیم دو دن قبل بنی ہے۔ کیا جواز ہے ایسے فیصلے کا۔ اب مولانا فضل الرحمن کی نظر بندی کی خبریں عام ہورہی ہیں۔ آئینی اور قانونی طور پر تو احتجاج کرنا جلوس نکالنا اور حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنا حتیٰ کہ استعفیٰ کا مطالبہ کرنا کسی بھی سیاستدان کا حق ہے۔ تو پھر پابندیاں اور گرفتاریاں کیوں؟ مولانا فضل الرحمن سے اب تک حکومت کیخلاف تحریک کے اعلان کے سوا کون سا جرم سرزد ہوا ہے کہ انہیں نظر بند کردیا جائے۔ ایسے اقدامات تو خود حکومت اور ملکی حالات کے لیے تباہ کن ہوںگے۔ ایک ایسے وقت میں جب بھارت کنٹرول لائن پر شر انگیزی میں مصروف ہے اور آبی جارحیت کررہا ہے، چناب کا پانی روک رہا ہے۔ پاکستان کی جانب سے مضبوط اور متفقہ موقف پیش کیا جانا چاہیے تھا لیکن پاکستان میں انتشار ہے کہ بڑھتا جارہا ہے اور پاکستانی وزیر خارجہ پاکستان کے داخلی انتشار کا الزام بھی بھارت پر ڈال رہے ہیں ہمارے وزیراعظم کے پاس کوئی گیدڑ سنگھی ہے جس کی مدد سے انہوں نے سعودی عرب اور ایران کو مذاکرات پر راضی کرلیا ہے تو مولانا فضل الرحمن کے لیے یہ گیدڑ سنگھی کیوں استعمال نہیں کی جارہی۔ اس کے برخلاف پورے ملک میں جنگی صورتحال پیدا کردی گئی ہے۔ کنٹینرز نصب کیے جارہے ہیں۔ اندھا دھند کام ہورہا ہے۔ پھلوں سے لدے کنٹینرز بھی روک لیے گئے ہیں۔ موبائل فون سروس بند کرنے پر غور ہورہا ہے اور لگتا ہے کہ ایسا ہو بھی جائے گا۔ کنٹینرز مالکان اورڈرائیورز احتجاج کررہے ہیں کہ ان کا کیا قصور ہے۔حکومت کی جانب سے الزام تو مولانا فضل الرحمن پر لگایا جارہا ہے کہ وہ کشمیر کی صورتحال کو پست پشت ڈال کر داخلی سیاست کررہے ہیں لیکن حکومتی اقدامات تو اسلام آباد کو عملاً مقبوضہ کشمیر بنارہے ہیں۔ حکومت کی غیر دانشمندی کے نتیجے میں صرف مولانا اور عمران خان کا معاملہ ایک مرتبہ پھر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے ہاتھ میں چلا گیا ہے۔ حکومتی وزیر کے دھمکی آمیز بیانات اور رویے پر مذاکرات منسوخ ہوگئے اور تمام امور اب رہبر کمیٹی کے پاس چلے گئے ہیں اور رہبر کمیٹی کا مطلب مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی ہے۔ گویا 2018ء میں عمران خان جہاں سے چلے تھے وہیں کھڑے ہوگئے ہیں۔ اب حالات یہ ہیں کہ جو پارٹیاں مولانا کے ساتھ نہیں بھی ہیں وہ بھی عمران حکومت کے معاشی اور سیاسی اقدامات کی وجہ سے مولانا کی کامیابی کے حق میں ہیں ان کی خواہش بھی یہی ہے کہ عمران حکومت ختم ہوجائے۔ کسی حکومت کیلئے یہ صورتحال بڑی مشکل ہوتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب کیا ہوگا، کیا مولانا فضل الرحمن نظر بند کردیے جائیںگے پھر کیا ان کے ہمنوا خاموش ہوکر بیٹھ جائیںگے۔ کیا مولانا کامیاب ہوجائیںگے۔ کیا عمران خان استعفیٰ دے دیںگے؟ اور سب سے بڑا سوال اگر عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ لائی ہے تو اب تک وہ اسٹیبلشمنٹ مولانا فضل الرحمن کو پیش قدمی سے روک کیوں نہ سکی۔ ایسے میں یہ خیال از خود آتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہیں ویسا تو نہیں؟