قرآن کی نص صریح کا انکار

1391

 

 

یہ چند ماہ پہلے کی بات ہے پنجاب کے ایک وزیر نے ایک بیان میں یہ کہہ دیا کہ جس طرح NCC کی تربیت کے تحت طلبہ کو خصوصی مارکس دیے جاتے تھے اسی طرح کالجوں اور یونیورسٹی کی طالبات کو حجاب کی طرف راغب کرنے کے لیے خصوصی مارکس سے نوازا جاسکتا ہے۔ اس بیان پر سیکولر اور لبرل لوگوں نے ہنگامہ کردیا۔ ایک ٹی وی کے پروگرام میں تو حد ہی ہوگئی۔ حسن نثار نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ پردے کا حکم امہات المومنین کے لیے تھا اس کا تعلق دوسری مسلم خواتین سے نہیں تھا۔ یہ قرآن کی نص صریح کا انکار تھا اور پوری امت کا اجماع ہے کہ قرآن کی نص صریح کا انکار کافر ہے۔ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ حسن نثار نے جو کچھ کہا ہے کہ یہ ان کی شخصی رائے ہے۔ لیکن چند روز پیشتر جاوید احمد غامدی کے شاگرد خورشید ندیم کے کالم میں حسن نثار کے خیال کی تکرار موجود تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ غامدی صاحب کے شاگردوں اور پنجاب کے اہل قلم میں قرآن کی نص صریح کا انکار ایک عمومی رجحان کے طور پر موجود ہے۔ لیکن خورشید ندیم کے کالم میں صرف قرآن کی نص صریح کے انکار ہی کا مسئلہ موجود نہیں۔ انہوں نے کئی اور گمراہیوں کا بھی مظاہرہ فرمایا ہے۔ ’’کیا عبایہ ایک مذہبی مسئلہ ہے؟‘‘ کے عنوان کے تحت خورشید ندیم نے لکھا۔
’’اس باب میں مجھے اس تفہیم سے اتفاق ہے کہ اسلام نے مرد اور عورت کے لیے کوئی لباس طے نہیں کیا۔ پردے کی اصطلاح بھی اسلام کے لیے اجنبی ہے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ انسان ایک خاص اخلاقی شعور کے ساتھ زندگی گزارے۔ یہ شعور اس کی شخصیت اور فطرت کا حصہ (in built) ہے۔ یہ شعور اس کی رہنمائی کرتا ہے کہ لباس کے باب میں گھر اور گھر سے باہر کا فرق پیش نظر رہے۔ یہ بات اتنی بدیہی ہے کہ اس پر دلیل کی ضرورت نہیں۔ تہذیب اور مذہب اسی شعوری احساس کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ہر آدمی گھر سے نکلتے وقت اس کا اہتمام کرتا ہے کہ اس کا لباس باہر جانے کے لیے مناسب ہے یا نہیں۔ آج صبح ٹی وی اسکرین پر نظر پڑی تو ایک مارننگ شو جاری تھا۔ شو میں کوئی اداکارہ بطور مہمان شریک تھیں جن سے سوالات کیے جارہے تھے۔ ایک سوال تھا: آپ کی والدہ جب باہر جاتی ہیں تو کیا لباس پہنتی ہیں؟ نوخیز اداکارہ نے بغیر کسی تاخیر کے جواب دیا: اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ وہ کہاں جارہی ہیں؟ کسی شادی پر یا کسی کی عیادت یا تعزیت کے لیے؟ یہ جواب دراصل اسی شعور کا اظہار ہے جو فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے۔ مذہب نے یاد دہانی کرائی ہے کہ لباس کا انتخاب انسان کے اخلاقی شعور اور جمالیاتی ذوق کا نتیجہ ہے۔ مدینہ میں جب مسلمان معاشرہ اہل فساد کا خصوصی ہدف تھا تو شریف گھرانوں کی خواتین کو خاص طور پر نشانہ بنایا جارہا تھا۔ قرآن مجید نے بتایا ہے کہ ان شریر لوگوں نے امہات المومنین کو بھی معاف نہیں کیا۔ مسلمان خواتین گھروں سے نکلتیں تو اوباش انہیں تنگ کرتے۔ ریاست، اس وقت اتنی مضبوط نہیں تھی کہ فسادیوں کو طاقت سے روک سکتی۔ اس موقع پر مسلمان عورتوں سے یہ کہا گیا کہ اگر انہیں گھروں سے باہر نکلنا پڑے تو اپنے اوپر ایک چادر ڈال لیا کریں تا کہ پہچانی جائیں اور انہیں اذیت نہ دی جائے۔ امہات المومنین کو چوں کہ خاص سماجی حیثیت حاصل تھی اس لیے ان کے لیے اس کے علاوہ بھی ہدایات دی گئیں جن کا مخاطب عام مسلمان خواتین نہیں تھیں۔
(روزنامہ دنیا۔ 21 ستمبر 2019ء)
خورشید ندیم کا یہ بیان اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کے انکار کے مترادف ہے کہ اسلام نے مردوں اور خواتین کے لیے کوئی لباس طے نہیں کیا۔ بلاشبہ اسلام یہ نہیں کہتا کہ ساری دنیا کے مسلمان اہل عرب کے لباس کی پیروی کریں۔ مگر اسلام میں ستر ڈھانپنے کی شرط اتنی بنیادی ہے کہ اسے نظر انداز کرکے اسلامی معاشرے میں لباس کے مسئلے پر بات ہی نہیں کی جاسکتی۔ اب اگر ستر کو ڈھانپنے کے تقاضے عربی لباس سے پورے ہوتے ہیں تو عربی لباس بھی اسلامی ہے۔ ستر ڈھانپنے کے تقاضے شلوار قمیص سے پورے ہوتے ہیں تو شلوار قمیص بھی ’’اسلامی لباس‘‘ ہے۔ ستر ڈھانپنے کے تقاضے اگر کسی اور ’’طرز‘‘ کے لباس سے پورے ہوتے ہیں تو اس لباس کو بھی اسلامی لباس کہا جائے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ لباس کے سلسلے میں اسلام ’’صورت‘‘ پر نہیں ’’معنی‘‘ پر اصرار کرتا ہے۔ لباس معنی سے ہم آہنگ نہ ہو تو پھر عربوں کا لباس بھی غیر اسلامی ہوجائے گا۔ اس کی ایک عصری مثال یہ ہے کہ بعض خواتین اتنا چست برقع پہنتی ہیں کہ اس سے جسم نمایاں ہو جاتا ہے۔ چناں چہ ایسا برقع بھی غیر اسلامی ہو جاتا ہے۔ صورت اور معنی کا یہ معاملہ اسلام کی پوری تہذیبی کائنات پر چھایا ہوا ہے۔ اس کی سب سے اچھی مثال مساجد کا فن تعمیر ہے۔ پاکستان اور بھارت کی مساجد، انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات اور چین کی مساجد سے مختلف ہیں۔ مگر ان میں ایک چیز مشترک ہے۔ ان کی روح۔ ان کا ’’مسجد پن‘‘۔ یہی معاملہ اسلامی لباس کا ہے۔مسلمان مردوں اور مسلمان خواتین کا لباس ہر صورت میں ’’ساتر‘‘ ہونا چاہیے۔ اس تناظر میں یہ کہنا کہ اسلام نے مسلمانوں کے لیے کوئی لباس طے نہیں کیا نری جہالت ہے۔
خورشید ندیم کی یہ بات بھی جہالت انگیز ہے کہ پردے کی اصطلاح اسلام کے لیے اجنبی ہے۔ ویسے تو غامدی اور ان کے شاگرد الفاظ پرستی یا ’’Literalism‘‘ کو پسند نہیں کرتے مگر یہاں خورشید ندیم لفظ ’’پردے‘‘ کو ایک اصطلاح کے طور پر بروئے کار لاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ذرا قرآن و سنت کی لغت سے پردے کا لفظ نکال کر دکھائو۔ ارے بھائی مسئلہ لفظ یا اصطلاح کا نہیں ’’تصور‘‘ کا ہے۔ قرآن و سنت میں پردے کا تصور وضاحت اور صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ اصل بات یہی ہے۔ خورشید ندیم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اسلام چاہتا ہے کہ ایک انسان خاص اخلاقی شعور کے ساتھ زندگی گزارے۔ یہ شعور اس کی فطرت اور شخصیت کا حصہ ہے۔ یعنی Inbuilt ہے۔ یہ شعور رہنمائی کرتا ہے کہ گھر اور باہر کا لباس مختلف ہوگا۔ ان فقروں میں بھی لاعلمی اور جہالت کا سمندر پوری طرح موجزن ہے۔ بلاشبہ اسلام چاہتا ہے کہ انسان اخلاقی شعور کے ساتھ زندگی گزارے مگر اسلام اخلاقی شعور کے تعین کا کام انسان کی نام نہاد مجرد باطنی زندگی پر نہیں چھوڑتا۔ وہ ٹھوس تعلیمات کی صورت میں انسان کو بتاتا ہے کہ حرام کیا ہے؟ حق کیا ہے؟ باطل کیا ہے؟ حسن کیا ہے قبح کیا ہے؟ جھوٹ کیا ہے؟ سچ کیا ہے؟۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ ہر بچہ اسلام یا اپنی اصل فطرت پر پیدا ہوتا ہے مگر اس کے والدین اسے عیسائی، یہودی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ ماحول کا جبر ایک بہت بڑا جبر ہے اور اسلام انسان کو ماحول کے جبر کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو خورشید ندیم انسان کے جس اخلاقی شعور کی بات کررہے ہیں وہ کہیں موجود ہی نہیں۔ مغرب میں کروڑوں لوگ ناجائز جنسی تعلقات استوار کیے ہوئے ہیں، اب وہاں ہم جنس پرستوں کی تعداد بھی کروڑوں میں ہے۔ یہاں تک کہ تحریم کے رشتوں میں جنسی تعلق یا Incest بھی مغرب میں عام ہے۔ اس کے تحت باپ بیٹیوں اور بھائی بہنوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کررہے ہیں۔ آخر مغرب کے کروڑوں لوگوں کا ’’Inbuilt‘‘ اخلاقی شعور کہاں چلا گیا؟ سوال یہ ہے کہ مغرب کا جو ’’اخلاقی شعور‘‘ اہل مغرب کو جنسی تعلقات کے بارے میں حلال و حرام نہیں سمجھا رہا وہ لباس کے سلسلے میں انسانوں کی کیا رہنمائی کرے گا؟ بدقسمتی سے مسلم معاشروں میں بھی مغرب زدگی عام ہے اور مسلم دنیا کے مغرب زدگان میں بھی ’’اخلاقی شعور‘‘ خال خال ہی نظر آتا ہے۔ بلاشبہ انسان کے نفس پر نیکی
اور بدی کا علم الہام کیا گیا ہے مگر انسان کے اندر موجود تقوے یا نیکی کو اُبھارنے اور قوی کرنے کے لیے انسان کے ’’خارجی ماحول‘‘ کا سازگار ہونا ضروری ہے۔ ورنہ رسول اکرمؐ کے ارشاد کے مطابق ماحول کا جبر ایک اسلامی فطرت کے حامل بچے کو عیسائی، یہودی، مجوسی، کافر، مشرک یا آج کی اصطلاحوں میں سیکولر اور لبرل بنا سکتا ہے۔ انسان کافر، مشرک سیکولر یا لبرل ہوجائے گا تو اس کا لباس بھی بدل جائے گا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اسلامی معاشروں میں ابھی حیا کا تصور موجود ہے۔ چناں چہ مسلم خواتین کے لباس سے بھی کچھ نہ کچھ حیا جھلکتی ہے۔ اس کے برعکس مغرب میں حیا کا تصور موجود نہیں۔ چناں چہ مغرب کی عورت کا لباس اسکرٹ بلائوز اور بعض صورتوں میں ’’بکنی کلچر‘‘ کا ترجمان بن گیا ہے۔ مغرب کی عورتوں کو کوئی ’’باطنی آواز‘‘ نہیں بتاتی کہ تمہارا لباس ٹھیک نہیں۔ اس کے برعکس مغرب کی خواتین اسکرٹ بلائوز اور بکنی کے استعمال کو اپنے ’’Cultured‘‘ ہونے کی علامت سمجھتی ہیں۔ کیا غامدی صاحب اور ان کے شاگرد چاہتے ہیں کہ مجرد داخلی شعور پر انحصار کرکے مسلم معاشرے بھی مغربی معاشروں کی طرح ہوجائیں؟ بلاشبہ غامدی اور ان کے شاگردوں کا مذہب مغرب پرستی کے سوا کچھ نہیں۔ اسلام کا نعرہ ہے دنیا کو اسلام کے مطابق بنائو۔ غامدی اور ان کے شاگردوں کا نعرہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو مغرب کے مطابق بنائو۔
خورشید ندیم نے مذکورہ بالا اقتباس میں ملفوف انداز میں یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ پردے کا حکم امہات المومنین کے لیے تھا۔ عام مسلم خواتین اس حکم کی مخاطب نہیں تھیں۔ یہی بات حسن نثار نے ٹی وی پروگرام میں بہ انداز دیگر کہی تھی۔ یہ بات کہہ کر خورشید ندیم اور حسن نثار نے قرآن کی نص صریح کا انکار کیا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
’’اے نبی! اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مسلمان عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے گھونگھٹ ڈال لیا کریں۔ اس تدبیر سے یہ بات زیادہ متوقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں گی اور انہیں ستایا نہیں جائے گا‘‘۔
(سورئہ الآحزاب:59-33، باحوالہ پردہ مولانا مودودی، صفحہ248)
اس سورئہ مبارکہ سے صاف ظاہر ہے کہ پردے کا حکم صرف امہات المومنین کے لیے نہیں تھا بلکہ تمام مسلم خواتین کے لیے تھا۔ مگر حسن نثار اور خورشید ندیم معاذ اللہ قرآن کو جھٹلا رہے ہیں اور خود کو سچا ثابت کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ سیکولر اور لبرل لوگ صرف ملائوں، مولویوں اور مذہبی جماعتوں کے دشمن ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اسلام سے بغض رکھتے ہیں اور انہیں ’’موقع‘‘ ملے تو قرآن کی نص صریح کے انکار سے بھی نہیں چوکتے۔ ہم نہ مفتی ہیں، نہ فتویٰ دینا ہمارا منصب اور مزاج ہے۔ مگر اتنی بات ہمیں معلوم ہے کہ قرآن کی نص صریح یا واضح حکم کا انکار کفر ہے۔ اس پر پوری امت کا اجماع ہے۔ تو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی عالم اور کوئی مفتی ایسا ہے جو بتائے کہ خورشید ندیم اور حسن نثار کا پردے سے متعلق بیان کیا کہلانے کا مستحق ہے اور شریعت اس سلسلے میں کیا سزا تجویز کرتی ہے؟۔
خورشید ندیم نے پردے کے تناظر میں یہ سوال بھی اُٹھایا ہے کہ کیا ریاست کا یہ حق ثابت ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو ایک خاص طرح کا لباس پہنائے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ خورشید ندیم کو یہاں ریاست اور اس کا حق تو یاد آیا مگر اسلام اور اس کا حق یاد نہ آیا۔ حالاں کہ ایک اسلامی ریاست میں اصل سوال ریاست کے حق کا نہیں اسلام کے حق کا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام کا یہ حق ثابت ہے کہ وہ اسلامی معاشرے کو ’’ساتر لباس‘‘ کا پابند بنائے اور قرآن و سنت کے احکامات کو ہر صورت میں نافذ کرے۔ جہاں تک ریاست کا تعلق ہے تو ہمیں معلوم ہے کہ چین میں انقلاب کے بعد 40 سال تک پوری قوم کو ایک لباس پہنایا گیا۔ اس سلسلے میں مرد اور عورت کی ’’کوئی‘‘ تخصیص نہیں تھی۔ جدید سیکولر اور لبرل یورپی ریاستیں برقع اور اسکارف پر پابندی لگا کر یہ ثابت کرچکی ہیں کہ جدید ریاست اپنے شہریوں کے لباس اور وضع قطع پر اعتراض کرسکتی ہے اب اگر ایک سیکولر اور لبرل ریاست برقع اور اسکارف اُترواسکتی ہے تو ایک جدید اسلامی ریاست مسلم خواتین کو برقع اوڑھنے یا اسکارف پہننے کا پابند بھی بناسکتی ہے۔ کیا ہمارے بعض انگریزی میڈیم اسکولوں میں ایک خاص طرح کا یونیفارم رائج نہیں ہے؟ کیا ان اسکولوں میں کوئی طالب علم شلوار قمیص پہن کر اسکول جاسکتا ہے؟ بلکہ کیا اِن اسکولوں میں کوئی طالب علم ٹائی پہننے سے انکار کی جرأت کرسکتا ہے؟ مغرب میں تو ریاست اپنے شہریوں کے ٹیلی فون ٹیپ کررہی ہے، ان کے کمپیوٹرز کی نگرانی کررہی ہے، ان کی ڈاک پر نظر رکھے ہوئے ہے اور ریاست کو ان کاموں سے روکنے والا کوئی نہیں۔ بلاشبہ اسلام کا ایک ’’ڈریس کوڈ‘‘ ہے اور ریاست معاشرے کو اس ڈریس کوڈ کا پابند کرسکتی ہے۔