فی الحال ملکی سیاست میں سب سے بڑا سوال یہی گردش کررہا ہے کہ 31 اکتوبر کو کیا ہوگا۔ کیا حضرت مولانا فضل الرحمن 31 اکتوبر کو فتح کا جھنڈا لہراتے ہوئے اسلام آباد میں داخل ہوجائیں گے اور ان کی قیادت میں آنے والا آزادی مارچ اسلام آباد کے ڈی چوک پر قابض ہو کر دھرنے کی شکل اختیار کرلے گا؟ پاکستانی میڈیا کے بیشتر tjzio kar, اینکر پرسنز اور کالم نگار اس سوال کو حل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں اور دور کی کوڑی لارہے ہیں۔ مولانا کی وہ خاکی ملیشیا بھی سوشل میڈیا پر رش لے رہی ہے جو حضرت نے آزادی مارچ کی حفاظت کے لیے تیار کی ہے۔ اس ملیشیا کی تعداد 80 ہزار کے قریب بتائی جاتی ہے۔ یہ لوگ آزادی مارچ کا حصہ نہیں ہوں گے بلکہ مارچ کے شرکا کو حفاظتی حصار فراہم کریں گے۔ مولانا نے مارچ کے شرکا کو ہدایت کی ہے کہ وہ دو جوڑے کپڑے، ڈرائی فروٹ، چنے اور گڑ ہمراہ لائیں۔ اگرچہ غیب سے من و سلویٰ بھی اُترے گا، لیکن شرکا کو بہرکیف خودکفیل ہونا چاہیے۔ آزادی مارچ کا آغاز 27 اکتوبر سے ہوجائے گا۔ یہ وہ تاریخ ہے جب 1947ء میں بھارتی افواج نے کشمیر پر قبضہ کیا تھا اس وقت سے اہل کشمیر اس تاریخ کو یوم سیاہ کے طور پر منارہے ہیں۔ حضرت مولانا 10 سال تک پارلیمانی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے لیکن انہیں کبھی اہل کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے یہ دن منانے کا خیال نہیں آیا۔ اب آزادی مارچ کی برکت سے یہ دن بھی ان کے پروگرام میں شامل ہوگیا ہے اس طرح کشمیریوں کی بھی سنی گئی ہے۔ 27 اکتوبر کو چاروں صوبوں سے جو مارچ برآمد ہوگا اسے کشمیر مارچ کا نام دیا جاسکتا ہے جو بعد میں آزادی مارچ کا روپ دھارلے گا۔ ہمارے ایک دوست نے یہ مضحکہ خیز انکشاف کیا ہے کہ حضرت مولانا نے حکومت کو ڈاج دینے کے لیے اپنے چار ہمشکل تیار کرلیے ہیں جو چاروں صوبوں میں مارچ کی قیادت کریں گے اور صوبائی حکومتوں کو چکرا کر رکھ دیں گے۔ سندھ اور بلوچستان حکومتوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آزادی مارچ کے ساتھ ان کا رویہ ہمدردانہ بلکہ دوستانہ ہوگا اور وہ مارچ کے شرکا کو پورا پروٹوکول دیں گی، جب کہ خیبرپختونخوا اور پنجاب میں آزادی مارچ کا راستہ روکا جائے گا۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ وہ مولانا فضل الرحمن کو اپنے صوبے سے نہیں نکلنے دیں گے، وہ اندازہ نہیں کرپائیں گے کہ ان کا سامنا مولانا فضل الرحمن سے نہیں ان کے ہم شکل سے ہے۔ وہ مارچ کو روکنے کے لیے پورا زور لگادیں گے، کئی مقامات پر پولیس اور مارچ کے شرکا کے درمیان جھڑپیں بھی ہوں گی۔ بالآخر حکومت ’’مولانا فضل الرحمن‘‘ کو پکڑنے اور انہیں ہائوس اریسٹ کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ وزیراعلیٰ لمحہ بہ لمحہ عمران خان کو اپنی کارکردگی سے آگاہ کرتے رہیں گے اور خان صاحب حضرت مولانا کی گرفتاری کی خبر سن کر سکھ کا سانس لیں گے۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ یہی ڈراما پنجاب میں بھی کھیلا جائے گا اور حضرت مولانا کا ہمشکل پنجاب پولیس کو چکر دینے کے بعد خود کو گرفتاری کے لیے پیش کردے گا۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو جونہی یہ اطلاع ملے گی کہ مولانا فضل الرحمن پولیس کی حراست میں ہیں تو وہ انہیں پورے پروٹوکول کے ساتھ اپنی گاڑی میں بٹھا کر اسلام آباد روانہ ہوجائیں گے تا کہ وزیراعظم عمران خان کے حضور پیش کرکے انعام و اکرام کے مستحق ٹھیریں، لیکن ان کی بدقسمتی ملاحظہ ہو کہ مولانا کا ہمشکل گاڑی میں بیٹھے بیٹھے روپ بدل کر اپنی اصل شکل میں آجائے گا اور خود کو چادر میں لپیٹ لے گا۔ جب وزیراعلیٰ اسلام آباد پہنچنے کے بعد عمران خان کے سامنے چادر میں لپٹے ہوئے اس شخص کو پیش کریں گے اور دعویٰ کریں گے کہ یہ ہیں مولانا فضل الرحمن تو وہ شخص چادر اُتار کر خود کو ظاہر کردے گا اور عثمان بزدار ہکا بکا رہ جائیں گے۔ اس وقت خان صاحب کا غصہ دیکھنے والا ہوگا، وہ بزدار پر پوری قوت سے چیخیں گے ’’بیوقوف آدمی یہ تم کسے پکڑ لائے ہو، مولانا فضل الرحمن تو خیبرپختونخوا میں ہائوس اریسٹ ہیں‘‘۔ اس ڈرامے کا کلائمکس یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن جو اسلام آباد ہی میں روپوش ہیں 31 اکتوبر کو اپنی کمین گاہ سے نکل کر آزادی مارچ کی قیادت فرمائیں گے اور سب کو حیران کردیں گے۔
خیر یہ سب تو تخیلاتی باتیں ہیں۔ 31 اکتوبر کی تاریخ جوں جوں قریب آرہی ہے حکومت کی سانس پھولتی جارہی ہے۔ وزیراعظم کے چہرے پر بھی ہوائیاں اُڑ رہی ہیں۔ انہوں نے مولانا سے بات چیت کے لیے ایک مذاکرات ٹیم قائم کردی ہے اس سے پہلے انہوں نے مولانا کے آزادی مارچ کو روکنے کا ٹاسک وفاقی وزیر مذہبی امور کو سونپا تھا لیکن انہوں نے ہاتھ کھڑے کردیے تھے۔ اب دیکھیے مذاکراتی ٹیم کیا لنکا ڈھاتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی بنیادی شرط یہ ہے کہ اگر حکومت ان سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے تو پہلے عمران خان استعفا دیں پھر مذاکرات کی میز پر آئیں۔ وہ اِن ہائوس تبدیلی کی تجویز پر بھی غور کرنے کو تیار ہیں لیکن اولین شرط یہی ہے کہ عمران خان مستعفی ہوں۔ مولانا اس شرط پر کوئی سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ وہ شرط ہے جو حکومت کے لیے کسی صورت قابل قبول نہیں ہوسکتی۔ وہ نئے انتخابات کرانے کے موڈ میں بھی نہیں ہے، اسے یقین ہے کہ پانچ سال کی مدت میں وہ حالات پر بڑی حد تک قابو پولے گی اور سرخرو ہوکر عوام کے پاس جائے گی۔ یہ سوال بھی دس ملین ڈالر کا ہے کہ کیا عمران حکومت پانچ سال پورے کرپائے گی اور کیا وہ حضرت مولانا کی یلغار سے جانبر ہوسکے گی؟۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس یلغار سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ خلائی مخلوق مولانا کو راستے میں روک لے ورنہ مولانا اسلام آباد آگئے تو حکومت کو جام کرکے رکھ دیں گے پھر وہی ہوگا جو مولانا چاہیں گے۔