پشاور ہائیکورٹ نے حراستی مراکز کوغیرقانونی قراردیدیا

192

پشاور(نمائندہ جسارت) پشاور ہائیکورٹ نے فورسز کی کارروائیوں کو قانونی تحفظ دینے اور مبینہ شدت پسندوں کو حراستی مراکز میں رکھنے کے لیے نافذ کردہ مخصوص قوانین ’ایکشنز ان ایڈ آف سول پاور ریگولیشن‘ کوغیرقانونی قرار دیدیا ہائی کورٹ نے احکامات جاری کرتے ہوئے کہا کہ قانون کے تحت گرفتار ملزمان کو عدالت میں پیش کیے جائیں گے۔ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل بینچ نے گورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان کی طرف سے اگست میں جاری ہونے والے آرڈیننس کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختونخوا کو حکم دیا ہے کہ انٹرمنٹ سینٹر اپنے تحویل میں لے، یہ احکامات فاضل بینچ نے پشاور ہائی کورٹ کے سینئر وکیل شبیر حسین گگیانی کی جانب سے ’ایکشنز ان ایڈ آف سول پاور ریگولیشن کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کے بعد جاری کردیے ہیں۔ اس سے قبل ایکشنز اِن ایڈ آف سول پاور قوانین پہلی مرتبہ 2011 میں اس وقت نافذ کیے گئے جب سابق قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں سیکورٹی فورسز کی طرف سے شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ جاری تھا اور امن عامہ کی صورتحال انتہائی مخدوش تھی۔ اس وقت یہ قوانین دو ریگولیشنز پر مشتمل تھے جن میں ایک فاٹا کے لیے اور دوسرا پاٹا یعنی ملاکنڈ ڈویژن کے اضلاع کے لیے نافذ کیا گیا ۔ ان قوانین کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے والے وکیل شبیر گیگیانی ایڈووکیٹ کا الزام ہے کہ حراستی مراکز میں ان افراد کو رکھا گیا ہے جو وقتاً فوقتاً مختلف علاقوں سے لاپتا ہوتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریگولیشنز میں قانونی شہادت ایکٹ کے برعکس کسی بھی حراستی مرکز کے آفسر کے بیان کو مشتبہ شخص کے خلاف شواہد کے طور پر قبول کیا جاسکتا ہے او ر اس کی بنیاد پر ان کو سزا بھی ہوسکتی ہے ۔