مذہبی کارڈ ہی کیوں؟

374

ایک زمانے میں کراچی شہر کی کوئی بھی چھوٹی یا بڑی شاہراہ ایسی نہیں تھی جہاں بسیں رواں دواں نہ ہوں۔ بے شک چند سال قبل تک سڑکوں پر بھاگتی دوڑتی بسوں میں اگر پرانی یا عوامی زبان میں ’’کھٹارا‘‘ بسیں بھی تھیں لیکن اچھی، نئی اور آرام دہ بسیوں کی بھی کوئی کمی نہیں تھی۔ ان شاہراہوں پر بسوں سے بھی کہیں زیادہ منی بسیں ہوا کرتی تھیں۔ بسیں ہوں یا منی بسیں، ان میں مشترک بات یہ تھی کہ ان میں بہت سارے روزی کمانے والے، دیانتدار اور دھوکے باز، بھی آیا کرتے تھے جو خاص بیماریوں کی ادوات بیچا کرتے تھے۔ کچھ عطر فروش، منجن فروش اور چورن بیچنے والے بھی ہوا کرتے تھے۔ یہ سب اتنے چرب زبان تھے کہ اپنی لچھے دار باتوں سے لوگوں کو اپنی پروڈکٹس کے مفید اور عام بازاروں میں فروخت ہونے والی اسی قسم کی ساری اشیا سے سستی ہونے کا دعویٰ بھی کیا کرتے تھے۔ کوئی بھی ایسا فرد جو ان بسوں میں سفر کیا کرتا تھا وہ ایک مرتبہ تو ضرور ان کے فسوں میں آجاتا تھا۔ لیکن کیا کبھی کسی نے اس بات پر غور کیا کہ ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آجانے میں کیا عوامل ہوا کرتے تھے جن کی وجہ سے ہر شخص یہ سوچنے پر مجبور ہوجایا کرتا تھا آخر دوا، عطر یا منجن کو خرید کر آزمانے میں حرج ہی کیا ہے؟۔ بات بہت سادہ سی ہے۔ جو شخص بھی کسی ایسی بیماری کا شکار ہو جس کی وجہ سے اس کی زندگی ایک عذاب بن کر رہ گئی ہو وہ بالکل اس فرد کی طرح ہوتا ہے جو گہرے پانی میں ڈوب رہا ہو۔ ڈوب نے والا کبھی یہ نہیں سوچا کرتا کہ اس کی مدد کو آنے والا کون ہے، وہ اسے دکھکا دینے والوں میں تو شامل نہیں تھا۔ چناںچہ اگر کہیں سے تکلیف میں آرام آجانے کی صدائیں سنائی دے رہی ہوں تو بیماریوں کے حامل افراد کا اس جانب متوجہ ہوجانا کسی بھی صورت خلاف فطرت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر میں بیماریوں کو بھی ایک غم کہدوں تو برصغیر انڈ و پاک میں بسنے والے سارے مسلمانوں کو بھی ایک ایسا غم لگا ہوا ہے جس کے معالج کی تلاش ان کی روح کی جستجو کا ایک جزوِ لاینفک بن چکی ہے۔ اس غم کا غمِ جہاں سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ غم خدا اور بندے کے درمیان ایک ایسا رشتہ ہے جس کی تلاش صرف مسلمانوں ہی کو نہیں بلکہ دنیا کے ہر بشر کو ازل سے ہے اور ابد تک رہی گی اور جب تک وہ اصل تعلق سے رست گاری حاصل نہیں کر لے گا اس وقت تک بظاہر پر سکون رہنے والا انسان کبھی اطمینانِ قلب حاصل نہیں کر سکتا۔ اس تعلق کا نام ’’مذہب‘‘ ہے اور مذہب ہی ایک ایسا رشتہ ہے جو بندے کو خالق کی تلاش میں ہر آن مصروف رکھتا ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ہم سب مسلمان ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ خواہ ہم کتنے ہی گمراہ ہو چکے ہوں، اسلام سے کتنی ہی دوری پر چلے گئے ہوں اور اپنی اصل راہ سے کتنا ہی بھٹک گئے ہوں پھر بھی وہ چنگاری جو اب دل و دماغ کے کسی گوشے میں دبی رہ گئی ہے، اْسے جب بھی کسی جانب سے یہ صدا آتی ہے کہ اٹھو، اللہ کے نظام کو دنیا میں نافذ کرنا ہے تو وہ گونجنے والی آواز اس کی سرد ہوتی ہوئی چنگاری کو شعلہ جوالہ بنا دیتی ہے اور پھر ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو لمحے بھر کے لیے یہ سوچے کہ صدا لگانے والا کون ہے اور وہ کتنا سچا ہے۔ ہم اپنی آنکھیں بند کرکے اس کی اقتدا میں روانہ ہوجاتے ہیں۔
انگریزوں کی بندوقوں کی گولیوں میں جو کیپ چڑھا ہے وہ سور کی چربی کا ہے، جنگ آزادی کے لیے نکلو۔ مسلمانوں کی خلافت اسلامیہ خطرے میں ہے، اٹھ کھڑے ہو۔ پاکستان کا مطلب لا الٰہ الا اللہ ہے اس لیے کٹ مرو۔ پاکستان میں انگریزوں کے قانون کا خاتمہ کرنا ہے، نفاذ مصطفی کی تحریک میں شامل ہو جاؤ۔ مشرقی پاکستان، پاکستان کا باغی ہو گیا ہے، جو ملک اسلام کے نام پر بنا تھا اس کے خلاف اٹھنے والی آواز اسلام سے انکار ہے، کھڑے ہو جاؤ اور اس بات کی بھی پروا مت کرو کہ سامنے والے بھی مسلمان ہیں۔ اسلام کے نام پر نو ستارے بن جاؤ۔ افغانستان میں روسیوں نے قبضہ کر لیا ہے، جہاد کے لیے نکل کھڑے ہو۔ ایسی نہ جانے کتنی تحریکیں گزشتہ 200 برس سے دیکھتے چلے آرہے ہیں اور اللہ کے بندے اللہ کے دین کا نام سن کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور پھر جب بھی پلٹ کر دیکھتے ہیں ان کو اس راہ پر ڈالنے والے دور دور تک کہیں بھی دکھائی نہیں دیتے لیکن یہ پاکستان کے مسلمانوں کا ایک ایسا غم ہے جس کو دور کرنے کا جو بھی دعویدار سامنے آتا ہے سب اس کی جانب لبیک لبیک کہتے ہوئے دوڑ پڑ تے ہیں۔
آج کل ہر جانب سے یہی شور سنائی دے رہا کہ کسی بھی مذہبی پارٹی کو اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ ’’مذہبی کارڈ‘‘ استعمال کرے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیا مذہبی اور سیاسی پارٹیاں ’’مغربی‘‘ کارڈ استعمال کریں؟۔ کارڈ تو یہی ہے جس کو کئی صدیوں سے نام بدل بدل کر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اس کارڈ کے استعمال کرنے پر کسی بھی قسم کی کوئی پابندی ہونی ہی نہیں چاہیے البتہ پابندی ہو تو اس کارڈ کے استعمال کرنے کے بعد اس کے خلاف چلے جانے والوں پر لگائی جائے۔ جو رہنمایان قوم لوگوں کو مذہب کے نام پر جمع کریں اور لوگ ان کی آواز پر ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہوجائیں لیکن اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کے بعد وہ اپنے دعوؤں، وعدوں اور عہد و پیمان سے پھر جائیں تو ان سب کو وہی سزا دی جائے جو مرتدوں کو دی جاتی ہے۔ اسلام کے نام پر لوگوں کو اکھٹا کرنا اور پھر اس عہد سے پھر جانا ایسا ہی ہے جیسے اسلام میں داخل ہونے کے بعد مرتد ہوجانا۔
حکومت وقت اس بات کا بہت شور مچارہی ہے کہ جماعت اسلامی یا جے یو آئی مذہبی کارڈ استعمال کر رہی ہیں لیکن قائد اعظم سے لیکر اب تک آنے والا پاکستان کا کوئی ایک حکمران بھی ایسا بتایا جائے جو مذہبی کارڈ استعمال کرتا دکھائی نہ دیا ہو۔ کوئی ’’بسم اللہ‘‘ پڑھتا نظر آیا، کوئی ’’اسلامی سوشل ازم‘‘ کے فلسفے بگھارتا رہا، کوئی پورا پورا قرآن سناکر عوام کو جہاد کے لیے اکساتا رہا، اب ’’ایاک نعبد و ایاک نستعین اور ریاست مدینہ‘‘ کا علمبردار سامنے آرہا ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ سارے کے سارے حکمران ان اتائی حکیموں کی طرح بسوں میں ادوایات، پھکیاں اور عطر فروشوں کی طرح ’’غم خواروں‘‘ کی تکلیف اور پریشانی کا فائدہ اٹھا کر اپنی اپنی کرسیوں کے تحفظ کے لیے کسی نہ کسی صورت مسلمانوں کو لگے اس غم کا فائدہ اٹھاتے نظر آتے ہیں جس کے لیے ہر مسلمان مثلِ ماہی بے آب کی طرح تڑپتے ہوئے یہی کہتا نظر آتا ہے کہ
میں مریض عشق رسول ہوں
جو کرو تو میری دوا کرو
کوئی نام سرور دیں کا لو
کوئی ذکر شاہ ہدیٰ کرو
مجھے خوشی ہے کہ پاکستان کے عوام ایک مرتبہ پھر اسلام کے نعرے کے گرد مثل پروانہ طواف کرتے نظر آرہے ہیں۔ پاکستان میں 7 دھائیوں سے اسلام کے نام پر دھوکا کھاتے کھاتے پاکستان کے سارے عوام اس نعرے سے اس حد تک بیزار ہوچکے تھے کہ گزشتہ کئی انتخابی تحریکوں میں کسی میں یہ جرات نہ ہو سکی کہ وہ اللہ کے دین کا حوالہ دے کر اپنی تحریک چلا سکے۔ موجودہ بیداری بے شک خوش کن ہے لیکن میرا خیال ہے کہ یہ اسلام کی احیا کا شاید آخری موقع ہے۔ اگر اسلام کا نام لیکر کوئی ’’تحریک آزادی‘‘ چل ہی پڑی ہے تو میری اس تحریک سے وابستہ ہونے والے ہر فرد اور خاص طور سے رہنمایان تحریک سے یہی گزارش ہے کہ اگر کامیابی ملنے کے بعد اللہ کے نظام کے نافذ کیے جانے کے سلسلے میں عوام کو اس بار بھی دھوکا کھانا پڑا تو شاید اس کے بعد اسلام کے ساتھ پورا پاکستان ہی دفن ہو کر جائے گا (ہزار بار خدا نخواستہ)، لہٰذا اگر یہ تحریک سچے دل کے ساتھ چلائی جارہی ہے تو اچھا ہے ورنہ پھر پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے۔