جو ڈر گیا‘ وہ مر گیا

566

 

 

مقبوضہ کشمیر کے عوام کو محصور ہوئے 3 ماہ ہونے کو ہیں۔ وہ بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے ہاتھوں جس ظلم اور اذیت کا شکار ہیں اس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ کرنا بیرونی دُنیا کے لیے ممکن نہیں ہے۔ کرفیو اور برقی ذرائع ابلاغ پر پابندی نے مقبوضہ علاقے میں کاروبار زندگی کو معطل اور دنیا سے کاٹ کر رکھ دیا ہے، کسی کو کچھ نہیں معلوم کہ اہل کشمیر پر کیا بیت رہی ہے۔ کتنے مریض جان بچانے والی ادویات نہ ملنے سے روزانہ دم توڑ رہے ہیں، کتنے لوگ بھوک کے ہاتھوں لقمہ اجل بن رہے ہیں اور کتنے شیر خوار بچے دودھ نہ ملنے سے ماں کی گود میں آخری سانس لے رہے ہیں۔ ’’مودی سرکار‘‘ نے سرکاری اسپتالوں اور پرائیویٹ کلینکس پر ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری کرنے پر پابندی لگادی ہے، اس طرح مقبوضہ علاقے میں جو اموات ہورہی ہیں ان کے صحیح اعداد و شمار حاصل کرنا دشوار ہوگیا ہے، جب کہ بھارتی قابض افواج اپنا وحشیانہ کھیل بدستور جاری رکھے ہوئے ہیں، وہ گھروں پر چھاپے مار کر نوجوانوں کو پکڑتی اور جعلی مقابلے میں مار دیتی ہیں، آٹھ سے بارہ چودہ سال کے بچوں کو گھروں سے اُٹھا کر غائب کردیا جاتا ہے، بھارتی فوجی عورتوں کی بے حرمتی کو بھی جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ یہ ہے وہ صورتِ حال جس میں زیر حراسات بزرگ کشمیری رہنما سید گیلانی نے اپنی قوم سے اپیل کی ہے کہ وہ صبر و عزیمت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتی رہے اور اپنے موقف میں لچک نہ آنے دے۔ اس کا موقف کیا ہے؟ بھارت سے آزادی اور پاکستان سے الحاق، اہل کشمیر خود کو ذہنی طور پر پاکستان کے شہری سمجھتے ہیں اور خود پاکستان کا بھی یہ دعویٰ ہے کہ کشمیر اس کی شہ رگ ہے جسے بھارت نے دبوچ رکھا ہے، ایسے میں سید علی گیلانی ایک سے زیادہ مرتبہ پوری دنیا کے مسلمانوں سے فریاد کرچکے ہیں کہ وہ آگے آئیں اور اپنے کشمیری بھائیوں کو بھارت کے چنگل سے چھڑائیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے اور بھارت کشمیریوں کا صفایا کردیتا ہے یا ان کی اکثریت کو اقلیت میں بدل دیتا ہے تو وہ اللہ کے ہاں جوابدہ ہوں گے۔ سید گیلانی کی یہ فریاد بظاہر مسلم امہ سے ہے لیکن اس کا اصل مخاطب پاکستان ہے جو کشمیر کو بجا طور پر اپنا حصہ سمجھتا ہے اور جو انگریز کی ناانصافی کے سبب بھارت کی جھولی میں چلا گیا ہے۔ پاکستان کو اپنی ذمے داری کا احساس ہے، یہی وجہ ہے کہ پاک فوج کے سربراہ نے کشمیریوں کو یقین دلایا ہے کہ وہ ان کے لیے آخری فوجی، آخری گولی اور آخری سانس تک لڑیں گے، ان کے اس بیان کا اہل کشمیر نے پُرجوش خیر مقدم کیا ہے اور درو دیوار پر بڑے بڑے پوسٹرز چسپاں کیے ہیں جن میں پاک فوج کے بیانیے کو سراہتے ہوئے اس سے کہا گیا ہے کہ وہ آئے اور انہیں بھارت کے خونخوار جبڑے سے چھڑائے ورنہ بھارتی درندے انہیں کچا چبا جائیں گے۔
اس سنگین صورتِ حال نے پوری دُنیا کے مسلمانوں اور خاص طور پر پاکستانی مسلمانوں پر بھارت کی قابض افواج اور آر ایس ایس کے دہشت گردوں کے خلاف جہاد فرض کردیا ہے۔ پاکستانی جذبہ جہاد سے سرشار ہیں وہ اپنے کشمیری بھائیوں کے دوش بدوش بھارت کے خلاف لڑنا چاہتے ہیں لیکن وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ جو پاکستانی مقبوضہ کشمیر جا کر بھارت کے خلاف لڑے گا وہ کشمیریوں کے ساتھ دشمنی کا مرتکب ہوگا۔ وہ سید گیلانی کی فریاد اور مظلوم کشمیریوں کی
طرف سے مدد کی اپیل کے باوجود فوج بھی مقبوضہ کشمیر بھیجنے کو تیار نہیں ہیں، تاہم وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ اگر یہ کشمیریوں سے دشمنی ہے تو ان سے دوستی کا پیمانہ کیا ہے؟ کیا ان کی بے بسی کا دور سے نظارہ کرنا دوستی ہے؟ خان صاحب جنرل اسمبلی میں خطاب سے قبل کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے مظفر آباد بھی گئے تھے جہاں انہوں نے ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے ایل او سی کے پار اپنے مظلوم بھائیوں کو یہ پیغام دیا کہ گھبرائو نہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں لیکن جب لوگوں کی طرف سے ایل او سی عبور کرنے کا مطالبہ کیا گیا تو خان صاحب نے اس کے جواب میں کہا کہ وہ 27 ستمبر تک جنرل اسمبلی میں ان کے خطاب کا انتظار کریں۔ انہیں توقع تھی کہ جنرل اسمبلی میں ان کی تقریر سے عالمی برادری کا ضمیر جاگ اُٹھے گا، وہ بھارت پر چڑھ دوڑے گی اور اسے مقبوضہ کشمیر میں اپنے اقدامات واپس لینے پر مجبور کردے گی۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ان کی تقریر کے دوران بیشتر عالمی رہنما اجلاس سے غائب تھے جن لیڈروں نے ان کی تقریر سنی انہوں نے کوئی ردعمل دینے سے گریز کیا۔ خان صاحب نے عالمی برادری کو یہ وارننگ بھی دی کہ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی ملک ہیں اگر دونوں کے درمیان ایٹمی تصادم ہوا تو پوری دنیا تباہی و بربادی کی لپیٹ میں آجائے گی اس لیے اقوام متحدہ آگے بڑھے اور مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے، لیکن خان صاحب کی یہ وارننگ بھی رائیگاں گئی اور کسی عالمی طاقت نے اس کا نوٹس ہی نہیں لیا۔ امریکا نے البتہ یہ مہربانی کی کہ مودی کے ساتھ عمران خان کو بھی اپنے دوستوں میں شمار کرلیا اور صدر ٹرمپ نے دونوں دوستوں سے اپیل کی کہ وہ اب
بات چیت کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل کرلیں تا کہ خطے میں امن قائم ہو، اس طرح امریکا جس سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ بھارت کو مقبوضہ کشمیر سے کرفیو اُٹھانے اور اس کی آئینی حیثیت بحال کرنے پر مجبور کرے گا محض امن کا بھاشن دے کر اپنے فرض سے سبکدوش ہوگیا۔
عمران خان عالمی رہنمائوں کے طرزِ عمل سے بہت مایوس تھے، انہوں نے برملا اس کا اظہار بھی کیا، البتہ پاکستان واپس پہنچے تو ان کا پُرجوش استقبال کیا گیا اور انہوں نے استقبالی ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا ساتھ دے یا نہ دے ہم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم بھارت کو ہر عالمی فورم پر رسوا کرتے رہیں گے، یہی جہاد ہے لیکن مظلوم کشمیریوں کا کہنا ہے کہ جہاد کے کچھ اور تقاضے بھی ہیں جنہیں پورا کرنا لازمی ہے۔ تازہ ترین صورتِ حال یہ ہے کہ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کی اپیل پر سیکڑوں افراد ایل او سی کو اپنے پائوں تلے روندنے کے لیے چکوٹھی (آزاد کشمیر) پہنچے ہوئے ہیں جنہیں آزاد کشمیر کی انتظامیہ نے ایل او سی سے کئی میل پرے روک لیا ہے اور خان صاحب اس خوف میں مبتلا ہیں کہ اگر ایل او سی (لائن آف کنٹرول) کو عبور کیا گیا تو بھارت آزاد کشمیر پر حملہ کردے گا اور جنگ چھڑ جائے گی۔ جنگ کا خوف انہیں ہر اس کام سے روک رہا ہے جس سے بھارت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ وہ نہ بھارت کی فضائی پروازیں بند کرنے کو تیار ہیں اور نہ پاکستان کے راستے بھارت افغان تجارت بند کرنے پر آمادہ ہیں، کیوں کہ اس سے دونوں ملکوں میں کشیدگی مزید بڑھے گی اور یہ کشیدگی جنگ کی راہ ہموار کرسکتی ہے۔ مثلا مشہور ہے کہ ’’جو ڈر گیا وہ مرگیا‘‘۔ اہل کشمیر کہتے ہیں کہ پاکستانی قیادت اگر اسی طرح جنگ سے ڈرتی اور ہمیں ڈراتی رہی تو ہمارا کام تمام ہوجائے گا لیکن جنگ پھر بھی نہیں ٹلے گی۔