انتخابات‘ سقوط ڈھاکا اور بھٹو کا دورِ حکومت(باب دواز دہم )

494

 

 

اس کے بعد پھر جذبات میں بہ جاتے ہیں ’’ذرا سوچیں تو ! جس شخص نے آپ کو مقصد حیات سے روشناس کرایا‘ جس نے آپ کو قرآن پڑھایا اور اس کے معنی ومطالب کا آپ کے اندر گہرا شعور پیدا کیا‘ جس نے محمد ؐکے نشانات راہ پر چلنے کی دل میں تڑ پ پیدا کی اور عملاً اس راہ پر ڈال دیا‘ جس نے آپ کی روح کو بیدار کیا‘ جس نے آپ کی توانائیوں کو یکجا کیا‘ جس نے آپ کو عزم وجہد کا سبق سکھایا‘ جو آپ کو میدان کا ر زار میں لے آیا جہاں آپ کا ہر سانس مجاہد کا سانس بن جاتا ہے۔۔۔۔ آج آپ اس کے بارے میں بزعم خود یہ فیصلہ کرنے کی جسارت فرما رہے ہیں کہ وہ آپ کی قیادت کے لائق نہیں۔ماشاء اللہ! ماشاء اللہ! اس نے تمھیں ایمان کی روحانی کیفیت سے سرفراز کیا‘ تمہاری عقل کو نکھارا‘ تمہیں بات کرنا سکھلایا۔ کیا یہ سب اس لیے ہے کہ تم اس کی ناشکری کرو‘‘۔ مصباح الاسلام فاروقی صاحب کا یہ خط ۲۵؍ اگست ۷۲ء کی تاریخ کا تھا۔
فاروقی صاحب نے جو کچھ لکھا تھا وہ ہر رکن جماعت کے دل کی آواز تھی۔ لیکن مولانا کی صحت کے لیے اب اتنا بڑا بوجھ اٹھانا ممکن نہیں تھا۔ ایک مجلس میں مولانا نے فرمایا کہ میں نے موجودہ نسل کے لیے بہت کچھ کردیا ہے‘ اب میں کچھ وقت آئندہ نسل کو بھی دینا چاہتا ہوں۔ مولانا کی مراد یہ تھی کہ جب ان کی صحت قائم ہے وہ ان منصوبوں کو کسی حد تک مکمل کردیں جو تحریک اقامت دین اور اسلامی نظام کے سلسلے میں ان کے ذہن میں موجود تھے‘ ان میں ایک تفہیم القرآن کی تکمیل تھی۔
جس طرح سیدنا ابو ذر غفاریؒ کی درویشی سیدنا عثمانؓ کے لیے فتنہ بن گئی تھی‘ اسی طرح فاروقی صاحب کے خط سے بھی جماعت کے اندر اور باہر کے حلقوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں۔ چودھری غلام جیلانی (جیلانی بی۔ اے) لکھتے ہیں کہ ایک دن مولانا نے مجھے یاد فرمایا اور کہا: ’’ایشیا‘‘ میں ایک اداریہ آنا چاہیے‘ جس میں ارکان جماعت کو انتخاب امیر کے موقع پر نجویٰ اور کنویسنگ سے متنبہ کیا جائے اس سے جماعت کا وہ سارا نظام تلپٹ ہو جائے گا جس کو اتنی محنت سے تیار کیا گیا ہے۔ انتخاب میں ارکان کو صرف اپنے علم و ضمیر سے رائے دینی چاہیے‘ لیکن اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ بیرونی حلقے بھی رائے زنی کرنے لگے ہیں۔ یہ رجحان جماعت کی اخلاقی تربیت کے لیے سخت مضر رساں ہے۔
میں نے عرض کیا: میں کیا لکھوں؟ میں خود اسی مرض کا شکار ہوں جس میں فاروقی صاحب مبتلا ہیں۔
مولانا مودودی کی اپیل
اس پر مولانا نے مجھے فی البدیہہ اداریہ لکھوانا شروع کردیا۔ یہ اداریہ ’’ایشیا‘‘ کے ۲۴؍ ستمبر ۷۲ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ اداریہ لکھوانے کے بعد مولانا نے فرمایا۔ بعض لوگ بڑے اخلاص سے ہماری قدروں کو پامال کررہے ہیں جن کو ہم نے بڑی محنت اور جدوجہد سے رائج کیا۔ ہمیں ہوش مندی سے کام لینا چاہیے۔
اس کے ساتھ ہی مولانا کی جانب سے ارکان جماعت کے نام ایک اپیل بھی ’’ایشیا‘‘ میں شائع کی گئی اس میں مولانانے فرمایا تھا:
’’جماعت اسلامی پاکستان کے امیر کا انتخاب عنقریب ایک بڑے نازک مرحلے پرہورہا ہے۔ ۳۱ سال تک جماعت میرے اوپر اعتماد کرکے میری رہنمائی میں کام کرتی رہی لیکن میری بیماری اور معذوری کی وجہ سے جس کو میں ارکان جماعت کے سامنے واضح کرچکا ہوں‘ اب ان کو کسی دوسرے شخص کا انتخاب کرنا ہے جو اس تحریک اور تنظیم کی رہنمائی پوری ذمے داری کے ساتھ کرسکے۔ اس موقع پر میں سب سے پہلے ارکان جماعت سے فرداً فرداً اپیل کرتا ہوں کہ ان میں سے ہر شخص بالکل اپنے ضمیر کے مطابق امیر جماعت کے انتخاب میں اپنی رائے دے اور اس معاملے میں کسی بیرونی اثر کو قبول نہ کرے۔ پھر جماعت سے بحیثیت مجموعی یہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنی صفوں میں کسی شخص کو بھی کنویسنگ کی اجازت نہ دے۔ خواہ وہ کنویسنگ کسی کے حق میں ہو یا کسی کے خلاف۔ اگر جماعت کا کوئی رکن اس کا مرتکب ہو تو اس کی فوراً رپورٹ کی جائے اور نظام جماعت کی اس خلاف ورزی پر اس سے بازپرس میں تساہل نہ کیا جائے اور اگر جماعت سے باہر کے لوگوں میں سے کوئی کنویسنگ کرکے ارکان جماعت کی رائے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرے تو اس سے صاف کہہ دیا جائے کہ آپ کی ہمدردی وخیر خواہی کا بہت شکریہ‘ مگر براہ کرم! اپنے ملک میں کم از کم ایک جماعت تو ایسی باقی رہنے دیں جو دھڑے بندیوں سے محفوظ ہو۔ جماعت اسلامی آج تک اس فتنے سے اسی بنا پر محفوظ رہی ہے کہ اس میں عہدوں کی طلب اور ان کے لیے امیدواری اور کنویسنگ کا دروازہ بند رہا ہے۔ اب اگر آپ اسے بھی اس خرابی میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں تو ہم یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ آپ حقیقت میں اس تحریک اور جماعت کے خیر خواہ نہیں ہیں۔ میں آخری گزارش ان حضرات سے بھی کرتا ہوں جو کچھ مدت سے جگہ جگہ کنویسنگ کررہے ہیں اور اب ان میں سے بعض نے اخبارات کے صفحات میں بھی اس کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ ان کی بڑی عنایت ہوگی اگر وہ جماعت کے نظام میں اس مداخلت سے باز رہیں۔ جماعت میں امیر کا انتخاب خفیہ رائے دہی کے ذریعے اس کے ارکان کرتے ہیں اور ارکان کا کام یہ ہے کہ صرف اپنے اور اپنے خدا کے درمیان ایمان داری کے ساتھ یہ رائے قائم کریں کہ ان کے نزدیک کو ن شخص جماعت کی رہنمائی کے لیے سب سے زیادہ موزوں اور قابل اعتماد ہے؟اس معاملے میں خود ایک رکن کو بھی دوسرے رکن کی رائے پر اثر ڈالنے کا حق نہیں ہے کجا کہ جماعت سے باہر کے لوگ جن پر اس تنظیم کو چلانے کی کوئی ذمے داری نہیں ہے‘ اس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کریں‘‘۔
(ختم شد)