چیف جسٹس‘ رینجرز اور پولیس حکام سے وضاحت طلب کریں گے؟

386

 4 اکتوبر 2019ء کے ’’جسارت‘‘ میں صفحہ اوّل پر خبر اور صفحہ 8 پر ایک تصویر موجود ہے جو دیکھنے اور توجہ کرنے کے قابل ہے۔ تصویر میں ایک فراری کو جس کے ہاتھ میں ہتھیار ہے رینجرز کے افسر سے ہاتھ ملاتے ہوئے دکھایا گیا ہے جب کہ پولیس اور رینجرز کے بعض افسران بھی موجود ہیں، تصویر کے نیچے لکھا ہے (کندھ کوٹ۔ فراری جرائم سے تائب ہو کر رینجرز ہیڈکوارٹر میں ہتھیار ڈال رہے ہیں) ۔ خبر یہ ہے کہ ’’کندھ کوٹ۔ 70 سے زائد فراریوں نے ہتھیار ڈالادیے۔ مختلف فراریوں کا مجرمانہ سرگرمیاں ترک کرکے قومی دھارے میں آنے کا اعلان۔ کندھ کوٹ کے 82 ونگ شہباز رینجرز کے ہیڈ کوارٹر میں تقریب، تحائف اور قومی پرچم تقسیم۔ خبر میں مزید کہا گیا کہ 81 ونگ شہباز رینجرز کے ہیڈ کوارٹر میں منعقدہ تقریب کے دوران تیغانی، جاگیرانی، چولیانی، میرانی، سبزوئی، جتوئی، سرکی، نندوانی و دیگر قبائل سے تعلق رکھنے والے 70 سے زائد فراریوں نے غیر قانونی اور مجرمانہ فعل ترک کرتے ہوئے قومی دھارے میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔ تقریب میں فراریوں نے اپنا اسلحہ اور گولیاں سیکٹر کمانڈر شہباز رینجرز کرنل ساجد کے حوالے کیں۔ اس موقع پر ڈی جی لاڑکانہ عرفان بلوچ، ڈپٹی کمشنر کشمور منور علی مٹھانی اور ایس پی کشمور اسد رضا شاہ بھی موجود تھے۔ قومی دھارے میں شامل ہونے والوں نے آئندہ کسی بھی غیر قانونی سرگرمیوں اور مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث نہ ہونے کے عزم کا اظہار کیا اور انہیں قومی دھارے میں لانے کے لیے سندھ رینجرز کی کاوشوں کو بھی سراہا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اب اس پاک سرزمین کی سلامتی اور تحفظ کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے اور ہمیشہ ملک و قوم کے وفادار رہیں گے۔ سیکٹر کمانڈر شہباز رینجرز کرنل ساجد، ڈی آئی جی لاڑکانہ عرفان بلوچ، ڈپٹی کمشنر کشمور منور علی مٹھانی اور ایس ایس پی اسد رضا شاہ نے قومی دھارے میں شامل ہونے والوں کو قومی پرچم اور دیگر تحائف پیش کیے اور ان کے قومی دھارے میں شامل ہونے کے جذبے کو سراہا۔
مذکورہ تقریب کی خبر اور تصویر کو دیکھنے کے بعد بعض سنجیدہ عوامی حلقوں میں سوالات اٹھائے اور تبصرے کیے جارہے ہیں جو ہم تک بھی پہنچے، لہٰذا قانون کی بالادستی اور بے لاگ انصاف کو یقینی بنائے رکھنے سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے احترام میں یہ ضرور سمجھا گیا کہ مذکورہ تقریب کی خبر اور تصویر کے بعد پائی جانے والی تشویش سے چیف جسٹس آف پاکستان جناب آصف سعید کھوسہ صاحب کو بھی آگاہ کیا جائے، کیوں کہ اس طرح کی تقریب جس میں رینجرز، پولیس اور سول انتظامیہ کے اعلیٰ حکام موجود ہوں اُن کے عمل کو محض عوامی تبصروں پر غلط قرار دینا مناسب نہیں ہوگا جب تک کوئی مجاز اتھارٹی اُس کے قانونی یا غیر قانونی ہونے کا فیصلہ نہ کردے۔ جب کہ اس حوالے سے عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس صاحب کی رائے یا فیصلے ہی کو حتمی تصور کیا جائے۔
(1) پہلا سوال تو یہ ہے کہ جن ’’فراریوں‘‘ نے ہتھیار ڈالے اُن پر الزامات اور جرائم کی فہرست کیا ہے، کیا ان فرارایوں نے کوئی قتل کیا، سڑک پر ڈاکا ڈالا، سرکاری تنصیبات کو کوئی نقصان پہنچایا، سیکورٹی فورسز پر حملے کیے، اغوا برائے تاوان میں ملوث ہیں وغیرہ۔ ان پر الزامات اور جرائم کی تفصیلات سے عوام کو آگاہ کیا جانا چاہیے تھا، جو نہیں کیا گیا، آخر کیوں؟
(2) ’’فراریوں‘‘ کو فراری کس نے قرار دیا عدالت، رینجرز یا پولیس نے؟ تاہم جس نے بھی قرار دیا ہو تب بھی ’’فراری‘‘ کے جرم کی تفصیل ضرور کسی پولیس اسٹیشن میں درج ہوگی، تو ایسی صورت میں جب ایک ملزم کو ’’فراری‘‘ قرار دیا گیا ہو تو کیا کسی فورس یا ایجنسی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ’’فراری‘‘ کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرنے کے بجائے کسی باوقار تقریب میں تحفے تحائف دے کر آزاد کردے؟۔
(3) سندھ میں لاگو قانون کے تحت غیر قانونی ہتھیار رکھنے کی سزا 25 سال ہے تو مذکورہ تصویر میں ایک فراری جو ہتھیار رینجرز کے افسر کے حوالے کررہا ہے اُس غیر قانونی ہتھیار کو رکھنے یا وصول کرنے والے میں سے کون جرم کا مرتکب ہوا۔ ہتھکڑی لگانے کے بجائے اگر مسکراہٹوں کے تبادلے میں ’’غیر قانونی ہتھیار‘‘ منتقل ہونا شروع ہوجائیں تو اُس کے بعد قانون کی بالادستی یا یہ کہ قانون سب کے لیے برابر ہے کے دعوے اور تصور کا کیا ہوگا؟۔ کیا اس طرح سے جرائم پیشہ لوگوں کی حوصلہ افزائی نہیں ہوگی؟۔
(4) ’’فراری‘‘ قانون کی زبان میں تب ہی فراری یا اشتہاری قرار دیا جاتا ہے جب وہ کسی سنگین جرم میں ملوث ہو اور قانون کی گرفت سے بھاگ رہا ہو، لہٰذا وہ ’’فراری‘‘ جن سے پورا علاقہ تنگ تھا اور عوام الناس بھی اِن فراریوں کو اچھی طرح سے جانتے ہیں جن کا تعلق کشمور، کندھ کوٹ اور جیکب آباد کے بعض علاقوں اور قبیلوں سے ہے تو ایسے فراریوں کو گرفتار کرکے عدالتوں میں پیش کرنے اور سزا دلوانے کے بجائے ان کے اعزاز میں پروقار تقریب کا انعقاد اور تحفے تحائف کی تقسیم کہاں کا انصاف ہے۔ اس طرح کے عمل سے پرامن اور شریف شہریوں کو کس طرح کا پیغام ملے گا۔ جب کہ ان فراریوں کے ہاتھوں سے تکلیف اور نقصان اُٹھانے والے متاثرہ شہری اگر یہ کہنا شروع کردیں کہ وہ دیکھو جس طرح سے رینجرز، پولیس اور ڈاکوئوں کے درمیان ڈیل ہورہی ہے تو اس کا جواب کس کے پاس کیا ہوگا؟۔
(5) خبر میں کہا گیا کہ فراری قومی دھارے میں شامل ہوگئے۔ تحائف اور قومی پرچم دے کر ان کے جذبے کو سراہا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا فراری کوئی سیاسی کارکن تھے جو قومی دھارے میں شامل ہوگئے، فراری کیا ریاست کے خلاف لڑ رہے تھے یا کوئی باغی تھے کہ اب انہوں نے پاکستان کا وفادار رہنے کا اعلان کردیا جس کے بعد انہیں تحائف اور پرچم ہاتھوں میں دیے جارہے ہیں۔ فراری اگر قاتل، ڈاکو اور پتھاری دار تھے تو ان کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے بجائے جیل میں ڈالا جانا چاہیے تھا، فراریوں کو تحائف دینا ایک شرمناک اور افسوسناک عمل ہے، جب کہ تحائف کی تفصیلات سے بھی عوام کو آگاہ نہیں کیا گیا۔ کیا ان فراریوں کو مٹھائی کے ڈبے دیے گئے، بوسکی کے جوڑے دیے گئے یا نئے نوٹوں کے بنڈل دیے گئے، تحائف خریدنے کے لیے پیسے کس مد سے نکالے گئے یا یہ کہ یہ تمام اخراجات فراریوں اور ڈاکوئوں کے سرپرست پتھاری دار وڈیروں نے برداشت کیے؟۔
(6) فضیلہ سرکی ایک معصوم بچی تھی جو آج سے 10، 12 سال پہلے ٹھل کے ایک گائوں کے رہائشی کے گھر سے اغوا کی گئی تھی، خبر تھی کہ اسے کندھ کوٹ کے کچے کے علاقے میں کسی ڈاکو کے پاس رکھا گیا ہے، فضیلہ سرکی کے والدین قرآن پاک سر پر اٹھائے پریس کلبوں اور پولیس تھانوں کے سامنے مظاہرے اور فریادیں کرتے کرتے بوڑھے ہوگئے، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری صاحب نے بھی نوٹس لیا تھا مگر آج تک رینجرز اور پولیس فضیلہ سرکی کو بازیاب نہ کراسکے۔ لہٰذا اس طرح کے واقعات کی موجودگی میں فراریوں کو ویلکم کرنے سے عام آدمی کا قانون اور انصاف پر کیونکر اعتماد باقی رہے گا؟۔
(7) یہ سوال بھی بہت اہم ہے جس طرح سے کندھ کوٹ کے رینجرز ہیڈ کوارٹر میں 70 سے زائد فراریوں کو ایک باوقار تقریب میں ہتھیار ڈالنے کا موقع اور معاف کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اسی طرح سے سندھ کی جیلوں میں قید اُن قیدیوں کو بھی معاف کردیا جائے گا جو اپنے جرائم سے توبہ تائب ہو کر قومی دھارے میں شامل ہونا چاہتے ہوں؟۔
(8) ’’فراریوں‘‘ کا آئندہ جرائم میں ملوث نہ ہونے کی ضمانت کیا ہے۔ کیا رینجرز اور پولیس آفیسرز کے سامنے زندہ باد کے دو نعرے لگادینے سے ’’فراری‘‘ یقینی طور پر پرامن شہری بن گئے یا یہ کہ اس طرح سے وہ جرائم کی دنیا کے بادشاہ ہوجائیں گے جن کی رسائی کچے کے جنگل سے لے کر قانون کے محافظوں تک ہوجائے گی؟۔
ہم ذاتی طور پر رینجرز اور پولیس کے اداروں کا احترام کرتے ہیں، ان کے اہلکاروں اور آفیسروں کی قربانیوں کا اعتراف اور خراج تحسین پیش کرتے ہیں تاہم کسی ڈاکو، قاتل یا فراری کو ماورائے قانون کوئی رعایت دینے کی حمایت نہیں کرسکتے۔ اداروں پر عوام کے اعتماد کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ اداروں کے ذمے داران بھی قانون کو ہاتھ میں لینے کے بجائے خود کو قانون کے تابع رکھیں، جب کہ کوئی بھی کام یا فیصلہ کرتے وقت ہر سرکاری ملازم کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ اللہ کے بعد عوام کے سامنے جوابدہ ہے۔ پاکستان کے کسی بھی شہری کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی بھی ادارے کے کسی بھی فیصلے یا عمل کو قومی مفاد اور قانون کی حکمرانی کے تناظر میں غلط یا صحیح ہونے پر سوال کرے۔ ہم اُمید رکھتے ہیں کہ چیف جسٹس آف پاکستان جناب آصف سعید کھوسہ صاحب قانون کے احترام اور عوام کی تسلی و اطمینان کے لیے رینجرز اور پولیس حکام سے مذکورہ تقریب کے بارے میں ضرور وضاحت طلب کریں گے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں انصاف پر قائم رہنے اور حق کی گواہی دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین