زمینی حقائق کی رسی پر ڈولتا افغانستان

462

 امریکا اور طالبان آج کے افغانستان کی دو بنیادی زمینی حقیقتیں ہیں۔ امریکا طالبان کو کچلنے اور خود کو بچانے کے تصور کا تعاقب کرتے کرتے افغانستان پہنچا تو طالبان نے امریکا کی جارحیت کے خلاف جہاد کے تصور کی بنیاد پر ایک عام افغان باشندے سے داد اور حمایت سمیٹی۔ طالبان کا سب سے بڑا حمایتی اور محسن خود امریکا تھا کہ جو فضائی اور زمینی کارروائیوں میں لحاظ وتمیز رکھے بغیر عام افراد کو مار کر طالبان کی حمایت کا دائرہ وسیع کرتا رہا۔ ان دو بنیادی حقیقتوں کے بعد سب کردار سائیڈ رول سے زیادہ کچھ نہیں۔ حد تو یہ کہ افغان حکومت اپنی قانونی حیثیت اور جواز کے باوجود جنگ زدہ ملک کی بنیادی حقیقت نہیں بن سکی بلکہ وہ امریکی بیساکھی پر کھڑے ڈھانچے اور قابض قوت کا مقامی چہرے سے بڑھ کو اپنا کوئی پائدارا نقش قائم نہ کرسکی۔ پاکستان طالبان کا معاون رہا بھی تو اس کی حیثیت محض مہمان اداکار کی سی تھی اور یہ بھی طالبان کے مرکزی کردار کا متبادل نہیں بن سکتا تھا کیونکہ طالبان خود کھڑے ہونے کا راستہ نہ اپناتے، پاکستان لاکھ چاہنے کے باجود اس غبارے میں ہوا نہیں بھر سکتا تھا۔ یوں سترہ برس میں افغانستان میں دنیا دوخانوں میں بٹی رہی۔ امریکا ناٹو ایساف، بھارت، اسرائیل ایک خانہ تو پاکستان، چین، بعد ازاں روس اور ایران ایک خانہ قرار پائے۔ دونوں طرف کے نیوکلئس امریکا اور طالبان رہے۔
دنیا کے ممالک ایک ایک کرکے افغانستان سے اپنا رخت سفر باندھ کر جا چکے ہیں مگر امریکا اب بھی وہیں کھڑا ہے۔ یوں جس زاویے سے بھی دیکھیں افغان مسئلے کی دو پرتیں نمایاں نظر آتی ہیں ایک کا نام امریکا ہے تو دوسری طالبان ہے۔ شاید یہی وجہ ان دو قوتوں کا ایک میز پر بیٹھنا ہی تنازعے کا حل سمجھا جاتا رہا ہے۔ دونوں کو ایک میز پر بٹھانے کے لیے کئی اطراف سے کام ہوتا رہا اور بڑی محنت کرکے آخر کار دوحہ مذاکرات کا چینل شروع کیا گیا تھا۔ کئی ادوار ہونے کے بعد جب ٹرمپ نے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا تو دونوں کو ایک دھچکا لگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا اور طالبان ہی ایک دوسرے کو کچھ نہ کچھ دینے کی پوزیشن میں ہیں۔ طالبان امریکا کی شکست کو فتح تو شاید نہ بنا سکیں اور نہ ہی اسے یہ عنوان دے سکیں مگر وہ اس لفظ کو ملفوف بنا سکتے ہیں۔ وہ امریکا کے افغانستان سے باعزت انخلا کا سامان کر سکتے ہیں۔ ایک ایسا انخلا جسے ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں اہم کامیابی بنا کر پیش کرسکیں۔ اسی طرح امریکا عالمی ایوانوں میں اپنے اثر رسوخ سے طالبان کے بین الاقوامی قبولیت کی راہیں کھول سکتا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر جس امریکا طالبان سمجھوتے کی نوید کچھ عرصہ پہلے سنائی گئی تھی اس میں طالبان کے لیے ’’امارات اسلامی افغانستان‘‘ کے الفاظ استعمال کیے جانے کی بات سامنے آئی تھی یہ ایک ملیشیا سے آگے ایک ریاست کی بات تھی۔ زلمے خلیل زاد کی کوششوں سے ہونے والے سمجھوتے میں طالبان اور امریکا دونوں نے اپنے اپنے مطلوبہ مقاصد اور کامیابیوں کی شبیہ گویا رخ دوست دیکھ لیا تھا۔ طالبان جس امارات اسلامی کی بحالی کے لیے لڑ رہے تھے سمجھوتے میں اس کی جھلک بھی تھی اور امریکا سترہ سالہ جنگ کے جس اختتام یعنی باعزت انخلا کی تلاش میں وقت گزارتا رہا اس کا عکس بھی سمجھوتے میں موجود تھا۔ اس لیے دونوں کے مذاکرات کا اچانک خاتمہ خوش گوار نہیں تھا۔ یہی وہ پہلو تھا جس میں امید جھلک رہی تھی کہ یہ ضرورتیں اور خواہشیں دونوں کو واپس مذاکرات کی میز پر لاکر ٹوٹے ہوئے دھاگے کو پرانی جگہ سے بحال کرنے پر مجبور کر دیں گی۔ اب طالبان کے گیارہ رکنی وفد کی اسلام آباد آمد ایک ایسے موقع پر ہوئی جب امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد بھی یہاں موجود ہیں۔ طالبان کا وفد چین، روس اور ایران کے دورے کے بعد اسلام آباد پہنچا اور اس کی قیادت ملا عبدالغنی برادر کررہے ہیں وہی ملا عبدالغنی برادر جنہیں نو برس قبل کراچی سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کی گرفتاری کو اس وقت بھی بہت سی طاقتوں کی طرف سے حفاظتی تحویل سمجھا گیا تھا اور ان کی رہائی کو بھی اسی طرح بہت سی قوتوں کے درمیان ایک مفاہمتی عمل کا نتیجہ کہا جا رہا ہے۔
افغانستان میں گزشتہ برسوں بڑا کھیل جاری رہا اور بڑے کھیل کا صرف وہی رخ اور رنگ نہیں ہوتا جو بظاہر دکھائی دیتا ہے بلکہ اس کے بہت سے میدان اور کردار پس پردہ بھی ہوتے ہیں۔ اسلام آباد میں طالبان وفد نے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ سے ملاقاتیں کیں۔ افغان حکومت نے اس ملاقات اور دورے کو پہلے بھی منسوخ کرایا تھا اور اب بھی دودھ میں مینگنی ڈالنا ضروری سمجھا کہ طالبان کو اسلام آباد میں دیا جانے والے پروٹوکول سفارتی اصولوں کے منافی ہے۔ یہ پیچ وتاب افغانستان کی دم توڑی ہوئی حکومت پر بھارتی اثر رسوخ کا پتا دیتے ہیں کہ دنیا کے تین نمایاں ملکوں سے ہوتے ہوئے طالبان جب پاکستان پہنچے تو افغان صدارتی محل میں بے چینی پھیل گئی۔ طالبان افغان حکومت کے ساتھ کس انداز میں بیٹھیں گے اصل مشکل یہی ہے۔ افغانستان میں صدارتی انتخابات ہو چکے ہیں اور ابھی نتائج کا اعلان باقی ہے مگر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ اپنی کامیابی کا اعلان کر چکے ہیں۔ افغانستان کے صدارتی انتخابات میں گوکہ درجن سے زیادہ امیدوار شامل تھے مگر اصل مقاملہ ماضی کی طرح صدر اشرف غنی اور نائب صدر عبداللہ عبداللہ کے درمیان ہی ہوا۔ گل بدین حکمت یار نے پہلے پہل سرگرم ہونے کی کوشش کی تھی مگر بعد میں وہ غیر فعال سے دکھائی
دیے۔ عبداللہ عبداللہ نے اس بار سب سے زیادہ منظم اور پرجوش انتخابی مہم چلائی۔ انہوںنے شمالی افغانستان کے طول عرض میں بڑے جلسے کیے اشرف غنی پشتون جبکہ عبداللہ عبداللہ تاجک ہیں۔ عبداللہ عبداللہ احمد شاہ مسعود کے قریبی جہادی ساتھیوں میں شامل رہے ہیں اور ان کی انتخابی مہم میں ان کے جہادی ماضی کی یاد دلانے والی تصویریں لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کراتی رہیں۔ عبداللہ عبداللہ نے اچھی سیاسی چال چلتے ہوئے ازبک لیڈر اور گلم جم ملیشیا کے بانی وکمانڈر عبدالرشید دوستم کی حمایت حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ دوستم نے عبداللہ عبداللہ کے لیے کامیاب جلسے منعقد کرائے اور ان جلسوں میں اپنے بیٹوں کی بطور جانشین رونمائی بھی کرائی۔ یوں اشرف غنی کے مقابلے میں تاجک اور ازبک راہنمائوں نے مشترکہ محاذ بنائے رکھا۔ انتخابات کے چند روز بعد کابل میں پاکستانی سفیر نے عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کی۔ دونوں نے افغانستان میں امن کی ضرورت پر اتفاق کیا۔ یہ ملاقات خاصی معنی خیز ہے۔ یہ تاثر بہت مضبوط ہورہا ہے کہ عبداللہ عبداللہ کی کامیابی کی صورت میں انٹرا افغان ڈائیلاگ کا عمل زیادہ آسان ہو جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طالبان اپنی پشتون شناخت کے ساتھ تنہا افغانستان پر راج نہیں کر سکتے وہ ماضی میں اس طرح کا ناکام تجربہ کر چکے ہیں۔ طالبان کو آخر کار افغانستان کی دوسری بڑی آبادی تاجک اور تیسری اہم اکائی ازبک اور اس کے بعد ہزارہ وغیرہ سے بات کرنا پڑے گی۔ یہ ضرورت عبداللہ عبداللہ کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے با آسانی پوری کی جا سکتی ہے۔ یہ سہولت کسی پشتون لیڈر کے معاملے میں حاصل نہیں رہی کیونکہ طالبان خود کو پشتون آبادی کی اصل نمائندہ قوت سمجھتے رہے ہیں۔ کابل کے پشتون حکمرانوں کو شاید طالبان سے یہی گلہ رہا ہے کہ انہوں نے کابل کے اقتدار کی راہداریوں اور بساط پر ان کی سودے بازی کی پوزیشن کو ہمیشہ کمزور کیے رکھا۔