طالبان تحریک اور حکومت۔ (دوسری قسط)۔

488

جنیوا معاہدہ افغانستان کے اندر طوائف الملوکی، جنگ و جدل، قتل و غارت گری اور اقتدار کی رسہ کشی کی وجہ بنا۔ بدیہی طور پر افغانستان کی بڑی جماعتوں کی گرفت ملک بھر میں پھیلی مقامی تنظیموں اور کمانڈروں پر کمزور پڑ گئیں۔ برہان الدین ربانی شمال کی قوتوں اور کمیونسٹ دور کی باقیات کے ساتھ تخت کابل پر متمکن ضرور تھے۔ مگر حقیقت یہ تھی کہ کابل سمیت کسی منطقہ پر کسی کی رٹ قائم نہ رہی۔ صوبوں اور اضلاع کی سطح پر درجنوں را ج دھانیاں قائم ہوئیں۔ جنگی کمانڈروں نے جگہ جگہ زنجیریں لگا کر محصول گویا جبری ٹیکس وصول کرنا شروع کر دیا۔ ٹیکس تمام قومی شاہراہوں، صوبوں اور اضلاع میں داخل ہوتے وقت لیا جاتا۔ کسی کی جان و مال، عزت و آبرو محفوظ نہ رہی۔ صرف جنوبی صوبے قندھار میں سو کے قریب کمانڈر الگ الگ علاقوں میں اپنی عملداری قائم کیے ہوئے تھے۔ جو من میں آتا کر بیٹھتے۔ کسی میں ان کے سامنے کھڑے ہونے یا فریاد کی مجال نہ تھی۔ چور اُچکے ان جتھوں میں شامل ہو گئے تھے۔ یہ ساری غارت گری و لاقانونیت، مجاہدین کی جدوجہد، اخلاص اور قربانیوں پر بد نما داغ بن گئی تھی۔ شہروں قصبوں اور دیہاتوں میں لوگ راتوں کو اجتماعی پہرا دیتے کہ کوئی گروہ لوٹ مار کے لیے گھروں اور محلوں میں داخل نہ ہو۔ قندھار واضح طور پر، کمانڈر عبدالعلیم، امیر لالئی، عطا محمد سر کاتب، ملا نقیب اللہ اور گل آغا شیرزئی پر تقسیم تھا۔ گل آغا شیرزئی کے پاس صوبے کی گورنری بھی تھی۔ یہ وہی گل آغا شیرزئی ہے جس نے افغان طالبان کے خلاف امریکیوں اور ان کے حامیوں کا ہر طرح سے ساتھ دیا۔ قندھار ائر پورٹ حاجی احمد نامی کمانڈر کے تصرف میں تھا۔ لوٹ مار کرنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد جہادی تنظیموں میں کردار و حیثیت کے حامل نہ تھی۔ بعض جہادی تنظیموں کا نام غلط طور پر استعمال کرتے تھے۔ یہاں تک کہ خواتین کی عزتوں کی پامالی کے واقعات رونما ہونا شروع ہوئے۔ کابل میں شمال کے جنگجو ایسے کئی واقعات کے مرتکب ہوئے۔ قندھار ہرات قومی شاہراہ پر مسافر گاڑیوں سے عورتوں کے اُتارے جانے کے چند ایک واقعات پیش آئے۔ کئی پاک دامن خواتین جنسی زیاد تیوں کا نشانہ بنیں۔ گویا بدامنی، لاقانونیت اور طوائف الملوکی کے اس بد ترین دور میں عاجز و مقہور عوام نجات دہندہ کی دعائیں کرتے۔
روسی حملہ آور افواج کے انخلا کے بعد قریباً پانچ سال افغان عوام ظلم و فساد کی چکی میں پستے ر ہیں۔ افغانستان کے صوبہ قندھار کے باسی بالخصوص پنجوائی اور میوند اضلاع کے لوگ افغان جہاد کے اُن نیک سیرت افراد کو اس صورتحال کی جانب توجہ دلاتے، جنہوں نے بال بچوں کی کفالت، مدارس و مساجد تک خود کو محدود کر رکھا تھا۔ ’’میوند‘‘ قندھار کا وہ مقام ہے جہاں کی بہادر پشتون افغان لڑکی ’’ملالہ‘‘ نے 27جولائی 1880ء کی دوسری انگریز افغان جنگ میں پژمردہ افغان حریت پسندوں میں مقاومت و استقامت کی روح پھونک دی تھی۔ ملالہ خود بھی قابض انگریز کے ہاتھوں شہید ہوئیں۔ میوند کی ملالہ پشتون مزاحمتی تاریخ میں ایک زندہ و تابندہ حوالہ ہے۔ چنانچہ گوشہ نشین، پاک دامن، قومی و دینی جذبے سے سرشار چند علماء و طلبہ نے معاشرے کی اصلاح کا قصد کر لیا۔ جنگ کے ان تجربہ کار سپاہیوں کے درمیان صلاح و مشورے اور تدابیر سوچی جانی لگیں۔ مجاہدین خود بھی اس بگڑی صورتحال پر رنجیدہ و مغموم تھے۔ سر دست 35علماء و طلبہ کی ایک مختصر جماعت بن گئی۔ ان کے سامنے اول اول بڑا مسئلہ قیادت کا تھا۔ ایک متقی پرہیز گار عالم دین مولوی عبدالصمد جس نے روسی افواج کے خلاف عملی جہاد میں حصہ لیا تھا، اس منصب و بارگراں کے لیے منتخب کیے گئے۔ مگر اس نابغہ روز گار مجاہد نے اتنی بڑی ذمے داری اُٹھانے سے معذرت کر لی۔ بعد میں ملا محمد عمر مجاہد کے شانوں پر یہ بھاری بوجھ لادا گیا۔ ملا محمد عمر کو ملک گیر شہرت حاصل نہ تھی۔ البتہ قندھار میں ان کی شناخت ایک شجیع، دیانتدار، تقویٰ دار اور درویش مجاہد کی تھی۔ ملا عمر کے والد غلام نبی، دادا محمد رسول اور پر دادا باز محمد بھی عالم دین تھے۔ چناںچہ سال 1994ء کی ماہ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں ضلع میوند کے گائوں ’’سنگیسار‘‘ کی سپین (سفید) مسجد سے تحریک کا اعلان ہوا۔ مالی ذرائع قطعی نہ تھے۔ درویشوں نے تحریک کے لیے کردار اور اچھی صفات کو معیار بنایا۔ ایک پرانی موٹر سائیکل کسی خیر خواہ نے دی تھی۔ بعد ازاں میوند کے علاقے ’’کشکی نخود‘‘ کے ایک صاحب حیثیت شخص حاجی بشر نورزئی نے تحریک کے لیے ہینو اور پک اپ گاڑی مہیا کردی۔ جس نے تیل سمیت گاڑی کی تمام اخراجات اپنے ذمے لے رکھے تھے۔ حاجی بشرکئی سال سے امریکی جیل میں قید ہیں۔ بظاہر الزام منشیات کے کاروبار کا ہے لیکن ان کا اصل جرم طالبان کی مالی امداد کرنا ہے۔
ناٹو اور امریکی حملے کے دوران جب بڑی نامور افغان شخصیات اور پاکستانی بکھرے اور نڈھال طالبان اور عرب باشندوں کو ڈالروں کے عیوض پکڑتے، امریکیوں کو ان کی نشاندہی کرتے۔ وہیں حاجی بشر جیسے لوگ طالبان اور عرب باشندوں کی محفوظ مقامات کو منتقلی، مالی اور دوسرے ذرائع سے مدد کرتے۔ غرض تحریک نے خود سر کمانڈروں کو شاہراہوں پر ٹیکس نہ لینے، عوام کے جان و مال کا احترام، شر و فساد سے باز آنے کے پیغاما ت بھیجے۔ طاقت کے نشے میں ڈوبے کمانڈر جواب میں ان سیاہ و سفید پگڑی والوں کا تمسخر اُڑاتے۔ مجبوراً تحریک پہلی کاروائی ایک گمراہ و قاتل کمانڈر دارو خان کے خلاف عمل میں لائی۔ جس نے بھاگنے میں عافیت جانی۔ معاً ایک اور کمانڈر صالح محمد جو جنسی زیادتوں کا مرتکب بھی تھا پر حملہ کر کے بے حیثیت کر دیا۔ قندھار کے معروف کمانڈر ملا نقیب اللہ نے تحریک سے تعاون کیا۔ اپنا تمام اسلحہ تحریک کے حوالے کر دیا۔ تحریک نے قندھار شہر اور مضافات کے چند اضلاع فسادیوں سے خالی کرا دیے۔ نام نہاد گورنر گل آغا شیر زئی اور چند دوسرے حیثیت کے حامل کمانڈروں نے اپنی قوت پاکستان کے سرحدی شہر چمن سے متصل افغان علاقے سپن بولدک منتقل کر دی۔ تاکہ وہاں کے کمانڈروں کی مدد کر کے تحریک کو انجام سے دوچار کیا جائے۔ سپن بولدک اور تختہ پل کے مقامات میں موجود سر کشوں میں شہرت منصور نامی کمانڈر کی تھی۔ یہ جنگجو سابق کابل رجیم سے وابستہ عصمت مسلم کا جانشین تھا۔ عصمت مسلم نے دوران جہاد چمن شہر پر بھی حملہ کیا تھا۔ اتنا جری تھا کہ کابل میں ہونے والے اس عمارت پر بھی راکٹ برسائے جہاں لویہ جرگہ ہو رہا تھا۔ اس کی فورس کو عصمت ملیشیا کہا جاتا تھا۔ جنگجوئوں کو فدائی پکارا جاتا۔ ملیشیا کی شناخت نسلی عصبیت کی بھی تھی۔ ملیشیا سرحد کے اس پار (چمن و قلعہ عبداللہ خان) کی پشتون سیاسی و دوسرے لوگوں سے فکری و ترجیحات کی گہری ہم آہنگی ر کھتی تھی۔ گویا ایک دوسرے کا حصہ تھے۔ مجاہدین کے خلاف ملیشائوں کا قیام ببرک کارمل کی حکمت عملی تھی۔ جن کے لیے الگ سے فنڈ رکھا گیا تھا۔ ان میں عصمت مسلم کی ملیشیا، سید نادری کا کیان ملیشیا اور رشید دوستم کا جوزجانی ملیشیا معروف تھا، جرائم پیشہ افراد حصہ تھے۔ طاقتور اتنے ہوئے کہ انہیں کابل حکومت کی بھی پروا نہ رہی۔ غرض عصمت مسلم کے انتقال کے بعد زمام کار کی منتقلی منصور کو ہوئی۔ موجودہ افغان حکومت میں قندھار پولیس کے چیف، کمانڈر عبدالرازق منصور کا بھتیجا تھا۔ کمانڈر عبدالرازق 18اکتوبر 2018ء میں قندھار کے گورنر ہائوس کے اندر ’’ان سائیڈر‘‘ حملے میں مارا گیا۔ اس حملہ میں این ڈی ایس کا صوبائی سربراہ بھی مارا گیا۔ گورنر ہائوس میں اعلیٰ سطح کا اجلاس ہورہا تھا۔ جس میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل اسکاٹ ملر دوسرے حکام بھی شریک تھے۔ سرحد پر اشتعال انگیزی کمانڈر رازق کا معمول تھا۔ 5 مئی 2017 کو ان کی کمانڈ میں افغان فورسز نے سرحد پر واقع چمن کے گائوں، کلی لقمان اور کلی جہانگیر پر حملہ کیا دس پاکستانی شہری جاں بحق ہو گئے تھے۔ ان میں دو خواتین اور پانچ بچے شامل تھے۔ اس گائوں میں مردم شماری ہو رہی تھی۔ مردم شماری عملہ کی حفاظت پر مامور دو اہلکار بھی جابحق ہو گئے تھے۔ پشتو نخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کی ہدایت پرپارٹی کے وابستگان نے بلوچستان کے پشتون اضلاع میں کمانڈر عبدالرازق کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔ نہیں معلوم کے ان کے چچا کمانڈر منصور کی غائبانہ نماز جنازہ بھی ادا کی گئی تھی یا نہیں۔
سپن بولدک کی طرف واپس آتے ہیں جہاں قندھار کے مذکورہ کمانڈروں نے مقامی کمانڈروں کو پوری کُمک پہنچائی۔ مگر ا س کے باوجود تحریک کے آگے ٹھیر نہ سکے، یہ سب تتر بتر ہو گئے۔ منصور طالبان کے ساتھ مقابلے میں مارا گیا۔ یہاں ایک اور سفاک کمانڈر نادر جان بھی جان سے گیا۔ سپن بولد ک کو جرائم پیشہ گروہوں سے پاک کرنے کے دوران تحریک کا ایک مجاہد محمد سلیم آغا گولی لگنے سے جاں بحق ہوا۔ جو قندھار کے علاقے زنگاوات کا رہنے والا تھا۔ یہ طالبان تحریک کی پہلی جانی قربانی تھی۔ واضح رہے کہ منصور نے پاکستان سے وسطی ایشیاء جانے والی پچاس ملین کے سامان سے لدی پچیس گاڑیوں کو مع عملہ کے تحویل میں لے رکھا تھا۔ جو تحریک نے اپنے قبضہ میں لے لیا۔ اب قندھار کے تاجروں، زمینداروں، مالداروں اور عام عوام نے تحریک کی امداد شروع کردی۔ صوبہ قندھار امن کا گہوارہ بن گیا۔ قندھار سے مزاحمت کے بعد مرحلہ وار ہلمند ارزگان، زابل، غزنی، میدان وردگ، پکتیا، نمروز، فرح، ہرات، غور بادغیز، ننگرہار کے علاقے بے پناہ جانی نقصان و سخت کشمکش کے بعد فتح کیے گئے۔  (  جاری ہے)۔