آج کا ڈراما اور آرٹس اپنی ذمے داری ادا نہیں کررہے ہیں، ڈراما نگار حسینہ معین

510

کراچی(اسٹاف رپورٹر) میڈیا بیٹھک کے زیر اہتمام مکالمہ اور پرفارمنس سیشن کا انعقاد کیا گیا، جس کا موضوع آرٹ کے ذریعے معاشرے میں رواداری اور بامقصد سوچ کا فروغ دینا ہے۔ شہرہ آفاق ڈراما نگار حسینہ معین کا کہنا تھا کہ آج کا ڈرامہ اور فنکار اپنی ذمے داری ادا نہیں کر رہا ہے.

آج چینلز مضبوط اور مربوط ڈرامہ نہیں بنا رہے ہیں جس سے معاشرے کی اصلاح کی جا سکے۔ جب آپ کوئی کام خلوص اور دیانت داری سے کرتے ہیں تو آپ کے مخالف پر اس کا ضرور اثر ہوتا ہے۔ دو ر حاضر کے نوجوان جب تک عالمی ادب کا مطالعہ نہیں کریں گے آپ کی سو چنے کی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہو سکے۔

معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے سوچ کے نئے دائرے ہونے چاہیے جن کی وسعت ایسی ہو کہ آپ برداشت اور محبت کا پیغام دے سکیں۔ آرٹ اینڈ کلچر کسی بھی انسان کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔

جو آپ کو اچھے اور برے کی تمیز کی لکیر کھینچنے میں مدد دیتا ہے۔ نامور شاعرہ ناصرہ زبیری کا کہنا تھا کہ عدم رواداری کے خلاف ہنگامی صوررتحال نافذ ہو، سوشل میڈیا پر جو نفرت موجود ہے وہ فنکاروں کے لئے کافی حد تک اہم ہے۔ان کے مطابق مہذب معاشرے میں اختلاف رائے یا تنقید کو برداشت کیا جاتا ہے اور اس سے اپنی اصلاح کی جاتی ہے، وقت آگیا ہے کہ عوام کو میٹھے اور نرم لہجے میں رواداری اور برداشت کی تعلیم دی جائے۔

ناشر اور ادب فیسٹیول کی ڈائریکٹر امینہ سید کا کہنا تھا کہ ادبی میلے، امن اور اقدار کا پیغام دیتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ فنون لطیفہ اور ثقافت، معاشرے پر گہرے نقوش ظاہر کرتے ہیں لیکن اس میں بدنظمی، افراتفری اور عدم برد اشت جیسے عوامل داخل نہیں ہونے چاہئے۔

مشہور ادیب اور نقاد ڈاکٹر آصف فرخی کا کہنا تھا کہ متوازن معاشرے میں مطالعہ کا رحجان ضروری سمجھا جاتا ہے جو اقدار کے نئے روشن دان کھولتا ہے۔ شدت پسندی سے مقابلہ کرتا ہے۔بدقسمتی سے حکومت مطالعے کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ فنون لطیفہ کو ترجیح نہیں دیتی ہے۔ جو تعلیمی نظام ہے وہ ایک ہجوم کی تشکیل کر رہا ہے۔

اس موقع پر معروف مصور اور آرٹسٹ رستم خان کے فن پاروں کی بھی نمائش کی گئی جس میں برداشت، رواداری اور اقدار کے ساتھ ساتھ انتہا پسندی کے رحجان کو روکنے کی عکاسی انتہائی خوبصورت انداز میں کی گئی تھی۔