سکھر (نمائندہ جسارت) محکمہ تعلیم سندھ کی بے ڈھنگی پالیسی کے باعث دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والی طالبات کے لیے تعلیم حاصل کرنا مزید مشکل ہوگیا، دیہی علاقوں کے تعلیمی اداروں میں دیہات سے ملازمت پانے والی ٹیچرز کو تعینات کرنے کے بجائے شہری علاقوں سے خواتین ٹیچرز کا تبادلہ کئی کلومیٹر دور دیہات میں کردیا گیا، بیشتر ٹیچرز سفری سہولیات کی عدم دستیابی پر پریشان، کئی ٹیچروں نے ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بارے میں سوچنا شروع کردیا۔ یوں تو سندھ کے شہری و دیہی علاقوں میں تعلیمی معیار ہمیشہ سیاسی شخصیات کی وجہ سے تدریسی عملے کے غلط تبادلوں کے باعث متاثر رہا ہے، مگر حالیہ دنوں تو محکمہ تعلیم نے خواتین ٹیچرز کے حوالے سے نئی منطق کا جواز بناتے ہوئے بے ڈھنگے طریقے سے شہری علاقوں میں کئی برسوں سے اپنے گھروں کے قریب تدریسی فرائض انجام دینے والی میٹرک اور کالج کی سطح کی خواتین ٹیچرز کا سندھ بھر خصوصاً ضلع سکھر کے شہر سے تیس سے چالیس کلو میٹر دور دیہی علاقوں میں تبادلے کرڈالے ہیں، جس کی وجہ سے دیہی علاقوں کی طالبات کا تدریسی عمل بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے، کیونکہ دور دراز علاقوں میں شہر سے تعلق رکھنے والی ٹیچرز کا بروقت پہنچنے اور واپس اپنے گھروں کو آنے کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا اور متعدد یہی علاقے تو ایسے ہیں کہ جہاں پر کسی قسم کی پبلک ٹرانسپورٹ کا بھی انتظام نہیں ہے۔ واضح رہے کہ محکمہ تعلیم سندھ نے ٹیچرز کی بھرتی کے وقت کبھی بھی ان نکات پر غور نہیں کیا کہ دیہی علاقوں سے بھرتی کی جانے والی خواتین اور مرد ٹیچرز کو ان ہی دیہی علاقوں میں اسکولوں میں تعینات کرکے تعلیم کے معیار کو بغیر کسی رکاوٹ اور سیاسی دبائو کے بہتر رکھا جاسکے بلکہ محکمہ تعلیم کی بوکھلاہٹ اور غلط حکمت عملی کی انتہا یہ ہے کہ زیادہ تر دیہی علاقوں کے ٹیچرز کو سیاسی سرپرستی حاصل ہونے کی وجہ سے شہروں میں متعین کردیا جاتا ہے، جبکہ شہر سے بھرتی کی گئی خواتین ٹیچرز کو سیاسی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے زبردستی دور دراز دیہی علاقوں میں متعین کردیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے نہ تو یہ ٹیچرز بروقت اسکول پہنچ سکتی ہیں اور نہ ہی انہیں سفر کے دوران کسی قسم کے تحفظ فراہم کرنے کی کوئی گارنٹی دی جاتی ہے۔ اس صورتحال میں ایک جانب تو شہری علاقوں سے دور دراز دیہات میں ٹرانسفر ہونے والی ٹیچرز شدید بے چینی اور غیر یقینی کیفیت سے دوچار ہیں تو دوسری جانب دیہی علاقوں سے بھرتی کیے گئے تدریسی اسٹاف اور سیاسی شخصیات کی خصوصی مہربانیوں کے باعث سندھ میں ایک مرتبہ پھر تعلیمی سلسلہ زبوں حالی کا شکار ہونے ہے، جس کو مد نظر رکھتے ہوئے اکثر خواتین ٹیچرز نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے کے لیے بھی سوچ بچار شروع کردی۔