لاڑکانہ (نمائندہ جسارت) وفاقی حکومت کی جانب سے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے مالی بجٹ میں دس فیصد کٹوتی کے بعد سندھ بھر کی جامعات کی طرح سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر کے نام سے منسوب جامعہ بے نظیر بھٹو بھی شدید مالی بحران کا شکار ہوچکی ہے، سندھ حکومت کے معیاری تعلیم کی فراہمی اور سندھ میں تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کے باوجود پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن جامعہ بے نظیر بھٹو مالی بحران کا شکار ہے، اس سلسلے میں مصدقہ ذرائع کے مطابق جامعہ بے نظیر میں 4 سو فیکلٹی ممبرز، 12 سو ملازمین، 23 سو طلبہ و طالبات کے لیے سالانہ 8 سو 57 ملین سندھ حکومت کی جانب سے جاری کیے جائیں گے، تاہم سال 2019ء کے نویں ماہ ستمبر تک فرسٹ کوارٹر 192 ملین جاری نہیں کیا جاسکا جبکہ سال 2018ء میں بھی ایک کوارٹر جاری نہیں کیا جاسکا۔ دوسری جانب جامعہ بے نظیر آریجا کیمپس جو کہ باقرانی کے قریب ائر پورٹ روڈ پر پچھلے 11 سال سے سست روی سے زیر تعمیر ہے کے لیے 9 سو 95 ملین جس میں مختلف طلبہ کو بیرون ملک اسکالر شپ پر بھیجنے کا بجٹ بھی شامل ہے کے باوجود آریجہ کیمپس مکمل تعمیر نہیں کیا جاسکا، جس کی ایک بڑی وجہ منصوبے میں بڑے پیمانے پر خورد برد بتائی جاتی ہے۔ یونیورسٹی ذرائع کے مطابق آریجا کیمپس منصوبے کے پراجیکٹ ڈائریکٹر وحید منگی کو ایک سال قبل ہائر ایجوکیشن کمیشن کی انکوائری کے بعد ملازمت سے برطرف کردیا گیا تھا تاہم سابق وائس چانسلر غلام اصغر چنا نے جاتے جاتے انہیں عہدے پر دوبارہ بحال کردیا تھا جبکہ موجودہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر انیلا عطا الرحمن معاملہ سینڈیکٹ میں لے گئیں اور وحید منگی کو دوبارہ ملازمت سے برطرف کردیا گیا، جن کی جگہ اب نئے پراجیکٹ ڈائریکٹر کام کررہے ہیں۔ اس سنگین نوعیت کے معاملے میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ سابق پراجیکٹ ڈائریکٹر وحید منگی نے یونیورسٹی کی مین آریجا کیمپس کے منظور شدہ نقشے کے برعکس تعمیرات کرکے پیسے ہڑپ کیے۔ علاوہ ازیں یونیورسٹی کے قیام سے اب تک 11 سال گزر جانے کے باوجود کوئی بڑی تحقیق سامنے نہ آسکی ہے جبکہ پی سی ون میں بیسک سائنس ڈپارٹمنٹس کے تمام ہیڈز چیئرمین ہوں گے اور ان کی تعلیم پی ایچ ڈی ہوگی، تاحال اس شق پر بھی عمل نہیں کیا جاسکا۔ 2012ء کی منظور شدہ پی سی ون میں یہ بھی تحریر کیا گیا کہ یونیورسٹی 25 سے 30 پی ایچ ڈی داخل کرتے ہوئے پوسٹ گریجویٹس کے دیگر کورسز بھی شروع کیے جائیں گے لیکن 2014ء میں بنائے گئے ڈائریکٹر ریسرچ پروفیسر ڈاکٹر حاکم ابڑو ان کی اپنی تعلیم پی ایچ ڈی نہیں ہے جس وجہ سے کنفلکٹ آف انٹرسٹ پیدا ہوچکا ہے، جبکہ اس وقت تک صرف ایک پی ایچ ڈی ہولڈر سامنے آسکے ہیں۔ واضح رہے کہ کچھ عرصہ قبل ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے یونیورسٹی کی تعمیر میں کرپشن کی شکایت پر فنڈز روک دیے گئے تھے تاہم یقین دہانی کے بعد دوبارہ فنڈز جاری کیے گئے۔