نوابشاہ ( رپورٹ: کاشف رضا) ضلع بے نظیر آباد میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کی وجوہات سامنے آگئیں، شہر میں بڑے پیمانے پر بجلی کی چوری حیسکو ملازمین کی ملی بھگت کے ذریعے ہو رہی ہے، جس کے ذریعے ماہوار کروڑوں روپے سرکاری خزانے میں جانے کے بجائے حیسکو کے نچلے اور اعلیٰ افسران کی جیبوں میں جا رہے ہیں ڈائریکٹ کنڈا یونٹ بائی فرکیٹ جلے ہوئے ٹرانسفارمر کی مرمت کے نام پر شہریوں سے بڑی رقم وصول کی جاتی ہے جبکہ ایک ٹرانسفارمر پر سرکاری سطح پر دیے جانے والے کنکشن سے زائد کنکشن کی وجہ سے آئے روز ٹرانسفارمر جل رہے ہیں۔ ادھر اطلاع موصول ہوئی ہے کہ کئی سرکاری محکموں کے میڑ تک نہیں لگے ہوئے جن کے بعد میں یونٹ آر او بائی فرکیٹ کے ذریعے پورے کردیتا ہے، حیسکو میں اصل کرپشن کی جڑ آر او لائن میں ایس ڈی او اور اعلیٰ سرکاری افسران ہیں، جن کے لیے بے نظیر آباد جنت سے کم حیثیت نہیں رکھتا، ایک سب ڈویژن کے ایس ڈی او نے اپنے بنگلے کے لیے ایک ٹرانسفارمر لگایا ہوا ہے جسے کسی دوسرے کو کنکشن نہیں دیا جاتا۔ ٹرانسفارمر پر زیادہ سے زیادہ لوڈ دینا و ایل ایس لائن سپرنٹنڈنٹ کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ اس ٹرانسفارمر سے اگر لوڈ بڑھ جائے تو لوڈ دوسرے ٹرانسفارمر پر ڈسٹری بیوٹ کرے۔ یا اس سے بڑا ٹرانسفارمر لگانے کا پروپوزل متعلقہ آفیسر کو پیش کرے، یا پھر ایک اور ٹرانسفارمر بھی ساتھ میں لاکر انسٹال کردے لیکن ایسا کرنے سے اعلیٰ سطح کی تحقیقات کروائی جاتی ہیں، جس پر بہت سے ملازمین شکنجے میں آتے ہیں۔ لہٰذا اس عمل سے دور ہی رہا جاتا ہے۔ لوڈشیڈنگ کا اصول یہ ہے کہ جن فیڈر پر ریکوری فیصد ہے، وہاں لوڈشیڈنگ 0 کرنی ہے، یہ حکومت کی پالیسی ہے لوڈشیڈنگ کی جن فیڈرز پر ریکوری کم اور چوری زیادہ ہے، ان فیڈرز پر 6 سے 8 گھنٹے کی 24 کلاک میں لوڈشیڈنگ کرنی ہے کوئی ٹرانسفارمر پھٹ جائے، تو ٹرانسفارمر مرمت کرانے کیلیے پرائیویٹ لوگوں کا سہارا لیا جاتا ہے، ہاں وہ اس لیے کہ جب ٹرانسفارمر پھٹ جاتا یا کوائل جل جاتے ہیں، تو اگر واپڈا اسٹور واپس جائیں گے اور متعلقہ وارنٹی والی کمپنی سے بن کر مرمت ہوکر آئیں گے، تو بہت دن لگ جاتے ہیں، ایمرجنسی میں ہر سب ڈویژن کے پاس صرف 1 یا دو ٹرانسفارمر ہوتے ہیں، تو اس لیے پھر یہ اس علاقے مکینوں سے چندہ لیکر پرائیویٹ کاریگروں سے ٹرانسفارمر کی مرمت کرواتے ہیں جو جلدی میں ہو جاتا ہے یہ مسئلہ ہے اور ہر مسئلے کے آگے اور پیچھے ایک اور دوسرا مسئلہ ہے معلوم ہوا ہے کہ ایک سب ڈویژن کا ایس ڈی او سیاہ و سفید کا مالک ہے جسے سیاسی سطح پر پشت پناہی حاصل ہے ۔ ذرائع نے بتایا کہ ضلع بھر میں کمرشل سطح پر بڑے پیمانے پر چوری ہے یہ چوری آئل ملز، آئس فیکڑیاں، آٹے کی چکیوں کے ساتھ ساتھ گھاس کاٹنے والی کٹر مشینوں کے مالکان حیسکو ملازمین کی ملی بھگت کے ذریعے کرتے ہیں، ان یونٹ کے عوض بھاری رشوت وصول کی جاتی ہے جو نچلی سطح سے اعلیٰ سرکاری افسران تک پہنچائی جاتی ہے۔ اس رشوت کے عوض اعلیٰ سرکاری افسران نے بڑے پیمانے پر آمدن سے زائد اثاثے بنالیے ہیں، ان اثاثوں کی تفصیلات بتائی جائیں تو حیران کن انکشافات سامنے آتے ہیں ان یونٹس کو جو گرڈ سے فیڈر اور فیڈر سے میڑ تک آتے ہیں، ہر صورت برابر دیکھانا ہوتا ہے اور یہ کام آر او آفس کرتا ہے یونٹ بائی فرکیٹ کتنے فنی طریقے سے کیے جاتے ہیں اسکا اندازہ صرف اسی وقت ہوتا ہے جب حیسکو اہلکار بتاتے ہیں اسکے علاوہ کوئی ان چوری شدہ یونٹس کو بر آمد ہی نہیں کرسکتا۔ ذرائع نے بتایا کہ سابق صدر پاکستان اور پیپلز پارٹی کے ہائوس پر الگ سے ایک فیڈر منظور ہے جس پر کئی ٹرانسفارمر کے ساتھ ساتھ اسٹینڈ بائی جنریٹر ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ نوابشاہ میں بجلی چوری پر عوامی حلقوں کی جانب سے تشویش پائی جاتی ہے۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ بعض ایسے علاقے بھی ہیں جہاں بجلی چوری نہیں ہوتی اور یونٹس کی وصولی بھی پوری ہوتی ہے، حکومتی فارمولے کے مطابق یہاں زیرو پرسنٹ لوڈشیڈنگ ہونی چاہیے لیکن ان علاقوں میں بھی طویل لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ عوامی حلقوں کی جانب سے ضلع بے نظیر آباد میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ان وجوہات کی بنا پر وفاق کی ٹاسک فورس کمیٹی تشکیل دے۔ پرانے تمام اعلیٰ سرکاری افسران کے تبادلے کرے اور جو اثاثہ جات بنائے گئے ہیں ان کی مکمل شفاف تحقیقات کروا کر نوابشاہ سے غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کو ختم کیا جائے۔