کیا ’’کورٹ مارشل‘‘ ہوگا…؟

406

صدر مملکت جناب عارف علوی نے گزشتہ دِنوں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’امریکا کی جنگ میں شرکت غلط فیصلہ تھا۔ یہ ہمارے بیانیے کی کامیابی ہے کہ اب دُنیا اعتراف کررہی ہے کہ افغان مسئلہ کا کوئی فوجی حل نہیں‘‘۔ اِسی طرح سے وزیراعظم عمران خان نے بھی روسی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’امریکا افغانستان میں اپنی ناکامی کا ذمے دار پاکستان کو نہ ٹھیرائے، امریکا کی جنگ نہ لڑتے تو ہم دُنیا کا خطرناک ملک نہ ہوتے، روس کے خلاف لڑیں تو جہاد اور امریکا کے خلاف لڑیں تو دہشت گرد، یہ تضاد کیوں، میں شروع سے اِس جنگ کے خلاف تھا، دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں پاکستان کو بھاری نقصان اُٹھانا پڑا۔ 70 ہزار جانیں گنوائیں، 100 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، پاکستان کو امریکا کی جنگ میں غیر جانبدار رہنا چاہیے تھا‘‘۔ (13 ستمبر 2019ء کے اخبارات مذکورہ بیانات موجود ہیں)۔
’’افغان جنگ‘‘ جو درحقیقت امریکا کی برپا کی ہوئی جنگ تھی جسے 9/11 کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف ’’صلیبی جنگ‘‘ کی نیت اور ارادوں سے شروع کیا گیا تھا اُس میں 19 برس تک پاکستان کے شامل رہنے کے بعد صدر مملکت عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان کے مذکورہ بیانات نے انتہائی اہم اور حساس سوالات کو جنم دیا ہے جن کا تعلق براہ راست دفاعی پالیسی اور قومی سلامتی سے ہے۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ 19 برس بعد صدر مملکت عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان کو یہ بات کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ ’’امریکی جنگ میں شرکت کا فیصلہ غلط تھا‘‘۔ کیا اس طرح سے پاکستان کے جرنیلوں پر کوئی دبائو ڈالا جارہا ہے یا یہ کہ امریکی صدر کو کوئی ردعمل دیا جارہا ہے؟۔ تاہم اگر یہ کہا جائے کہ عارف علوی اور عمران خان اس سے پہلے صدر اور وزیراعظم کے منصب پر فائز نہیں تھے۔ لہٰذا 19 برس پہلے کے فیصلوں کا انہیں ذمے دار قرار نہیں دیا جاسکتا تو یہ جواب معقول اور مناسب ہوگا مگر اس پر بھی یہ سوال ضرور اُٹھے گا کہ کیا ’’تحریک انصاف‘‘ کی حکومت جسے ایک برس مکمل ہوچکا ہے اس نے اس دوران کوئی ایسا فیصلہ کیا جس کے بعد امریکا کی افغان جنگ سے پاکستان علیحدہ ہوگیا ہو۔ کیا پاکستان کے راستے افغان جنگ کے لیے جاری ’’ناٹو سپلائی‘‘ روک دی گئی ہے۔ امریکی فوج کو پاکستان کی بندرگاہ، فضائی حدود اور زمینی راستے استعمال کرنے کا اجازت نامہ منسوخ کردیا گیا ہے، انٹیلی جنس معلومات دینے سے انکار کردیا گیا ہے، اگر ایسا کچھ نہیں ہوا اور واقعی نہیں ہوا تو پھر صدر مملکت عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان کس بنیاد پر امریکی جنگ میں شرکت کو غلط قرار دے رہے ہیں، جب کہ خود ان کی اپنی حکومت میں گزشتہ ایک برس سے یہی غلطی دہرائی جارہی ہے۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران اگر صدر مملکت یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکی جنگ میں شرکت کا فیصلہ غلط تھا تو یہ کوئی معمولی یا نظر انداز کردینے والی بات نہیں بلکہ بہت اہم اور توجہ طلب ہے۔ لہٰذا یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صدر محض اپنے خطاب اور وزیراعظم محض اپنے ایک انٹرویو میں امریکی جنگ میں شرکت کو غلط قرار دے کر بری الذمہ ہوگئے۔ کیا محض ’’غلطی‘‘ کا اعتراف کرکے 70 ہزار پاکستانی شہریوں کی قربانی اور اربوں ڈالر کے معاشی نقصان کا ازالہ کرلیا گیا یا یہ کہ انصاف، ضمیر اور قومی غیرت کا تقاضا یہ ہے کہ جنہوں نے مذکورہ ’’غلط فیصلہ‘‘ کیا انہیں اُس کی سزا ملنی چاہیے، جب کہ اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی اُٹھے گا کہ امریکی جنگ میں شرکت کا غلط فیصلہ کس نے کیا تھا اُس کا نام اور پتا بھی بتایا جائے۔
اکتوبر 2001ء میں جب امریکی و ناٹو افواج نے براستہ پاکستان افغانستان پر حملہ کیا تو اُس وقت جنرل مشرف پاکستان کے صدر اور آرمی چیف تھے۔ جنرل مشرف نے کورکمانڈرز اجلاس میں امریکی جنگ میں شرکت کا فیصلہ کیا تھا۔ بعدازاں انہوں نے قوم سے خطاب کے دوران مذکورہ فیصلے کے فوائد بھی بتائے، جب کہ جنرل مشرف کے بعد جنرل اشفاق پرویز کیانی، جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ تک یعنی اب تک امریکا کی ’’افغان جنگ‘‘ میں پاکستان کی شرکت بدستور جاری ہے۔ پاکستان کے کسی آرمی چیف نے کبھی یہ نہیں کہا کہ امریکا کی جنگ میں شرکت غلط فیصلہ تھا اور نہ ہی اِس فیصلے کو تبدیل یا منسوخ کرنے کی کوشش کی گئی بلکہ ہمیشہ یہ کہا گیا کہ یہ پاکستان کی اپنی جنگ ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’افغان جنگ‘‘ لڑنے والے تو اپنی کوئی غلطی تسلیم نہیں کررہے اور نہ ہی انہوں نے کبھی کوئی ایسا تبصرہ کیا کہ جو صدر عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان کررہے ہیں تو اس تضاد کا مطلب کیا ہوا، کون ہے جو عوام کو دھوکا دے رہا ہے، حقائق کو مسخ کررہا ہے، قوم سے جھوٹ بول رہا ہے اور امریکا کی جنگ لڑ رہا ہے، اس کی وضاحت ہونی چاہیے۔
جنرل ملازم ہیں، ممکن ہے وہ کسی ’’غلط فیصلے‘‘ کے براہ راست ذمے دار نہ ہوں کیوں کہ کوئی بھی جنگ لڑنے یا نہ لڑنے کا فیصلہ کابینہ، وزیراعظم اور صدر کو کرنا ہوتا ہے۔ جب آئین بحال ہوگا تو پھر غلط یا صحیح فیصلے اُن حکمرانوں ہی سے منسوب کیے جائیں گے جو مشکل فیصلے کرنے کا آئینی اختیار رکھتے ہوں، تاہم یہاں یہ بات بڑی واضح ہے کہ اکتوبر 2001ء میں جب افغانستان پر امریکی و ناٹو افواج کے حملے کی نہ صرف حمایت کی گئی بلکہ ہر طرح سے حملہ آور فوج کی مدد کرنے اور اُسے پاک سرزمین استعمال کرنے کی اجازت بھی دی گئی تو اُس وقت پاکستان کے حکمران صدر جنرل مشرف جو آرمی چیف بھی تھے۔ لہٰذا صدر مملکت عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان یہ جو بار بار کہہ رہے ہیں کہ امریکی جنگ میں شرکت کا فیصلہ غلط تھا تو اس ’’غلط فیصلے‘‘ کے براہ راست ذمے دار جنرل مشرف بنتے ہیں تو کیا صدر اور وزیراعظم سابق صدر و آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کا ’’کورٹ مارشل‘‘ کرنا ضروری سمجھیں گے جن کے مذکورہ غلط فیصلے کی وجہ سے پاکستان کے 70 ہزار شہری شہید ہوگئے اور اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ علاوہ ازیں کیا تحریک انصاف کی حکومت کوئی ایسا عدالتی ٹریبونل یا عدالتی کمیشن بنانا پسند کرے گی جو اُن تمام صدور، وزرئے اعظم اور وزرائے خارجہ کو طلب کرکے یہ معلوم کرے کہ اکتوبر 2001ء سے امریکی جنگ لڑنے کا جو فیصلہ کیا گیا تھا وہ کس طرح سے پاکستان کے مفاد میں تھا، ثابت کریں؟۔
اُمید ہے کہ صدر عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان امریکی جنگ میں شرکت کے فیصلے کو بار بار غلط قرار دینے کے بجائے وہ ضروری اقدامات کریں گے جن کے بعد ’’غلط فیصلے‘‘ کرنے والوں کو بھی معلوم ہوجائے گا کہ ’’غلط فیصلوں‘‘ کا انجام کیا ہوتا ہے، جب کہ قوم کو بھی اطمینان ہوجائے گا کہ ہمارے شہدا کا خون رنگ لایا، امریکی جنگ میں قوم کو دھکیلنے والے بالآخر خود گھسیٹ لیے گئے۔ یہی مکافات عمل ہے جس کا بہرحال آج نہیں تو کل امریکی جنگ لڑنے کا غلط فیصلہ کرنے والوں کو سامنا کرنا ہوگا۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہم سب کی مدد، حفاظت اور رہنمائی فرمائے۔ آمین ثم آمین۔