سکھر( نمائندہ جسارت) کئی برسوں سے گنے کے کاشتکاروں کو لوٹنے والی شوگر ملوں کے مالکان کے لیے آنے والا کرشنگ سیزن مشکلات کے انبار کے ساتھ آنے کے لیے تیار، شوگر ملز کی مسلسل من مانیوں اور انتہائی کم نرخ دیے جانے کے بعد سندھ کے زیادہ تر علاقوں میں صرف تیس فیصد گنا کاشت کیا گیا، ستر فیصد گنا کاشت نہ کرنے کی وجہ سے شوگر ملوں کے لیے من مانے نرخ پر گنا خریدنا ناممکن ہوچکا، بعض شوگر ملیں پورا سیزن ہی کرشنگ نہیں کرسکیں گی۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ کئی برسوں کے دوران سندھ کے شوگر مل مالکان خصوصاً سکھر، خیرپور، گھوٹکی ، لاڑکانہ اور نوابشاہ میں قائم شوگر ملوں کے مالک بااثر سیاسی شخصیات نے کاشتکاروں کی جانب سے بے تحاشہ گنا کاشت کیے جانے کے بعد ان کی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے من مانے نرخ لاگو کیے رکھے، حالانکہ گزشتہ برس عدالت کی جانب سے 182 روپے فی من گنے کے نرخ کاشتکار کو ادا کرنے کے حکم کے باوجود شوگر مل مالکان نے عدالتی احکامات کو نظر انداز کرتے ہوئے کاشتکار کو 130 روپے فی من کے حساب سے گنا خریدتے رہے اور عدالتی حکم کے مطابق182 روپے فی من کی رسید پر کاشتکار سے زبردستی دستخط لیتے رہے، اس طرح شوگر مل تک گنا پہنچانے اور مزدوری دینے کے بعد کاشتکار کو گنے کے فی من 90 روپے بچت ہوتی رہی، جو فصل پر آنے والے اخراجات سے کئی گنا کم تھی۔ اس صورتحال سے مسلسل کئی برسوں سے گزرنے اور سیاسی شخصیات کی حکومتوں میں شمولیت کے باعث گنے کے مناسب نرخ نہ ملنے کے بعد گزشتہ برس ہی گنے کے کاشتکار انتہائی مایوس اور بد ذن ہوگئے تھے، لہٰذا انہوں نے گنے کی کاشت کو انتہائی کم کرکے تیس فیصد پر لے آئے، تاکہ شوگر ملوں کو گنا فروخت کرنے کے بجائے وہ دیسی طریقے سے گڑ اور شکر بناکر مارکیٹ میں مناسب نرخوں پر نقد فروخت کرسکیں۔ کاشتکار کے اس اقدام کے اثرات کی زد میں نومبر میں شروع ہونے والے شوگر ملوں کے کرشنگ سیزن پر پڑے گا ، کیونکہ اس مرتبہ شوگر ملوں کو مجموعی طلب کے برعکس بمشکل تیس فیصد گنا میسر آئے گا۔ جس کی وجہ سے ایک جانب تو شوگرمل چینی کی مطلوبہ پیداوار نہیں کرسکیں گی، جس کی وجہ سے ان کے بنیادی اخراجات بھی پورے نہیں ہوںگے اور زیادہ تر شوگر ملیں تو کرشنگ کا پورا سیزن ہی نہیںچل سکیں گی۔ ایک محتاط سروے کے مطابق سکھر، خیرپور اور گھوٹکی اضلاع کی شوگر ملوں کے نمائندوں نے سروے کرکے آنے والی وقت کی پریشان کن صورتحال سے شوگر مل مالکان کو آگاہ کردیا ہے۔ اس طرح اب شوگر مل مالکان کے نمائندے تیس فیصد کھڑی گنے کی فصل کو گزشتہ برسوں کی نسبت تین گنا زیادہ قیمت ادا کرکے بھی خریدنے کی کوشش میں مصروف ہیں، مگر کاشتکار نے بھی تہیہ کررکھا ہے کہ شوگر مل مالکان کو گنا فراہم کرنے کے بجائے وہ دیسی طریقے سے شکر اور گڑ تیار کرکے وہ مارکیٹ میں فروخت کریں گے۔ لہٰذا اس صورتحال میں کئی شوگر ملز کا دیوالیہ ہوجانا اور آنے والے وقتوں میں چینی قیمتوں میں کئی گنا اضافے کا خدشہ بھی موجود ہے۔ کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کی زراعت کے بارے میں اسی طرح کی غیر ذمے دارانہ اور اپنے سیاسی مفادات کے لیے پالیسیاں بنائی جاتی رہیں تو آگے چل کر گندم کی پیدوار میں بھی بحرانی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے۔