ان حالات میں ۱۷۔۲۳؍دسمبر ۱۹۶۹ء تک جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کا اجلاس منعقد ہوا۔مرکزی شوریٰ نے فیصلہ کیا کہ جماعت اسلامی آئندہ انتخابات میں پوری قوت سے حصہ لے گی۔
۳۰؍دسمبر کو مولانا مودودیؒ نے لاہور میں جماعت اسلامی کے صدر دفتر میں ایک پریس کانفرنس میں جماعت اسلامی کا منشور پیش کیا۔ اس منشور کو جماعت کی مرکزی شوریٰ ۲۰؍ دسمبر۱۹۶۹ء کو اجلاس میں منظور کر چکی تھی۔
ملک بھر میں یکم؍ جنوری ۱۹۷۰ء سے سیاسی سرگرمیاں بحال ہو گئیں۔ ان حالات میں ملک کی اسلامی تحریک انتخابی زندگی میں داخل ہوگئی۔ انتخابی مہم ایک سال پر پھیل گئی۔ ۱۱؍ جنوری ۱۹۷۰ ء کو مولانا مودودیؒ نے باغ بیرون موچی دروازہ میں جلسہ عام میں اپنی پہلی تقریر میں جماعت اسلامی کا منشور اور آئینی اصلاحا ت کا خاکہ پیش کیا۔ سیاسی سرگرمیوں کے آغاز کے ساتھ ہی جماعت اسلامی کے خلاف پروپیگنڈے کا طوفان اور تشدد کی لہر میں اضافہ ہو گیا۔ ۱۸؍ جنوری ۱۹۷۰ء کو پلٹن میدان ڈھاکا میں ملک کے عام اجتماعات کی تاریخ کی سب سے بڑی غنڈہ گردی ہوئی۔ تین بجے سے پانچ بجے تک جلسہ عام کو اکھاڑنے کے لیے حملے ہوتے رہے۔ حملہ آوروں نے جلسہ گاہ کے تمام راستے بند کر دیے‘ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ پلٹن میدان تک نہ پہنچ سکے۔ پنڈال کو آگ لگادی گئی‘۲ کارکن شہید‘۲۶ لاپتا اور ۱۱۵کارکن زخمی ہوگئے۔ مارشل لا حکومت نے قتل و غارت گری اور غنڈہ گردی سے آنکھیں بند کرلیں۔ شیخ مجیب الرحمن کی بنگلا قوم پرستی کے ساتھ عوامی نیشنل پارٹی کے کا مریڈ عبدالحمید بھاشانی‘ جلاؤ ‘ جلاؤآگ جلاؤ ،پرچی نہیںبرچھی‘ انتخاب نہیں انقلاب جیسے نعرے لگاتے رہے۔ مگر حکومت نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ یہی حال مغربی پاکستان کا تھا‘ جہاں پرجماعت اسلامی گوجرانوالہ کے کارکن محمد اسماعیل کو شہید کیا گیا ‘ بے شمار کارکنوں کو زدوکوب اور زخمی کیا گیا۔
جن حالات میں پہلے عام انتخابات ہورہے تھے‘ پاکستان بین الاقوامی سرد جنگ کا اکھاڑا بنا ہوا تھا۔ مارشل لا حکومت نے جس طرح ملک کے دونوں حصوں میں تشدد اور جلاؤ ‘گھیراؤ کو کھلی چھوٹ دے دی تھی‘ اس کو دیکھتے ہوئے اسلامی تحریک کے قائد کی دُوربیں نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ: ’’ملک میں جمہوریت کے بجائے فسطائی آمریت کے قیام کا راستہ ہموار ہورہا ہے۔ مغربی پاکستان میں بھی جلاؤ گھیراؤ کا نعرہ لگا کر ملک کوخانہ جنگی‘انتشار اور تشدد کی آگ میں دھکیلنے کی کوششیں جاری تھیں‘‘۔
اس وقت دو بڑے چیلنج ہمارے سامنے آگئے ہیں۔ پہلا چیلنج یہ ہے کہ پاکستان میں اسلامی نظام نافذ ہویا کو ئی دوسرا نظام۔ دوسرا چیلنج یہ ہے کہ پاکستان ایک ملک رہے گا بھی یا نہیں۔
اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے جماعت اسلامی کی انتخابی مہم کا آغاز ہوا۔
جماعت اسلامی کا انتخابی کلچر
۲۲سالہ سیا سی وفوجی آمریت‘سول وخاکی افسر شاہی کے طرز حکمرانی نے پاکستان کی یکجہتی کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔ جنوری ۱۹۷۰ء میں عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے امیر جماعت اسلامی پاکستان مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کے مشورے سے ’’تحفظ نظریہ پاکستان‘‘ فنڈ قائم کرنے کا اعلان کیا۔ قوم کے نام اپیل جاری کرتے ہوئے ’’نظریہ پاکستان‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے فرمایا: ’’پاکستان جس نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا وہ یہ تھا کہ اسلام اس ملک کا نظام زندگی ہوگا۔ یہ ایک ملت کا ملک ہوگا۔ اس کی حکومت جمہوری اصولوں پر قائم ہوگی۔
جماعت اسلامی نے پورے ملک میں مشرقی اور مغربی پاکستان میں دستورساز اسمبلی کے لیے ۱۴۵ نمائندے کھڑے کیے تھے۔ اس کے علاوہ ملک کی تمام صوبائی اسمبلیوں کے لیے ۲۴۱ نمائندے کھڑے کیے۔
(جاری ہے)