مون لینڈنگ کا نشہ

587

بھارت کا خلائی مشن چندریان ٹو بدترین ناکامی سے دوچار ہوچکا ہے۔ اس مشن پر بھارت نے 900 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی تھی۔ چناں چہ چندریان ٹو کی ناکامی سے بھارت کے 900 کروڑ روپے ڈوب گئے۔ اس صورتِ حال میں بھارتی سائنس دان روتے بلکتے اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی انہیں دلاسا دیتے ہوئے پائے گئے۔ پاکستان کے دو سائنس دان بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ کے مصداق چندریان ٹو کی ناکامی کے ہنگامے میں کود پڑے۔ پاکستان کے معروف سائنس دان ڈاکٹر عطا الرحمن نے کہا کہ پاکستان کو بھی بھارت کی تقلید کرتے ہوئے خلائی دوڑ میں شامل ہوجانا چاہیے۔ پاکستانی خاتون خلا باز نمرہ سلیم اس سلسلے میں زیادہ ہی جذباتی ہوگئیں۔ انہوں نے ناکام مشن پر بھی بھارت کو ’’مبارک باد‘‘ دے ڈالی اور فرمایا کہ جنوبی ایشیا کا کوئی بھی ملک خلا کے حوالے سے بازی لے جائے جیت سائنس کی ہوگی۔ انہوں نے ’’مطلع‘‘ کیا کہ خلا میں سرحدیں تحلیل ہوجاتی ہیں۔
اقبال نے کہا تھا
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا
مغرب نے خدا کے انکار کے بعد مادے کو خدا بنالیا اور اس کی زندگی کی ترجیحات بدل کر رہ گئیں۔ جب تک انسان کی زندگی ’’خدا مرکز‘‘ تھی اس وقت تک الٰہیات سب سے بڑے علم کی حیثیت رکھتا تھا۔ اہم بات یہ تھی کہ الٰہیات میں انفس و آفاق دونوں کی سیر کا تصور موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں خود کہا ہے کہ ہم انہیں انفس و آفاق میں اپنی نشانایاں دکھائیں گے مگر بدقسمتی سے خدا کے انکار کے بعد مغرب کے انسان کے لیے مادہ پہلی اور آخری حقیقت بن گیا اور انفس و آفاق میں خدا کی نشانیاں تلاش کرنے کا خیال اس کے لیے فضول بن گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انسان کی روحانی، اخلاقی، تہذیبی، سماجی، جذباتی اور احساساتی زندگی تاریک ہوتی چلی گئی۔ البتہ انسان خلا میں دور تک دیکھنے اور دور تک سفر کرنے کے قابل ہوگیا۔ اس لیے اقبال نے کہا ہے کہ ستاروں کی گزر گاہوں کو ڈھونڈنے والا اپنی زندگی کی شب تاریک کو سحر سے ہمکنار نہیں کرسکا۔ حالاں کہ انسان کی بنیادی ضرورت زندگی کی تاریکی کو دور کرنا ہے۔ انسان زندگی کو روشن نہ کرسکے تو وہ چاند کیا خواہ سورج پر چلا جائے اس کے کوئی معنی نہیں۔ مگر اب اقبال کی بات مغرب کیا مسلمانوں کے لیے بھی اہم نہیں۔ مغرب معیار بن چکا ہے اور ڈاکٹر عطا الرحمن اور نمرہ سلیم جیسے ہزاروں مسلم سائنس دان مغرب کے راستے پر چلنے ہی کو زندگی کی معراج سمجھتے ہیں۔ مگر زیر بحث مسئلے کا ایک اور پہلو بھی ہے۔
بہت کم لوگ اس بات سے آگاہ ہیں کہ Moon Landing سپر پاورز کے نشوں میں سے ایک ’’نشہ‘‘ ہے۔ بھارت بیچارہ ابھی تک سپر پاور تو نہیں بنا ہے مگر بالی ووڈ کی فلموں کے زیر اثر اس کے سیاسی رہنما سپر پاور کی ایکٹنگ کرنے میں مصروف ہیں۔ مگر Moon Landing سپر پاورز کا نشہ کیسے بنی؟۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں امریکا اور سوویت یونین دو سپر پاورز کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے درمیان زندگی کے ہر دائرے میں مقابلہ جاری تھا۔ امریکا ہائیڈروجن بم بناتا تھا تو سوویت یونین بھی ہائیڈروجن بم بناتا تھا۔ سوویت یونین دس ہزار کلو میٹر تک مار کرنے والا میزائل تیار کرتا تھا تو امریکا بھی دس ہزار کلو میٹر تک مار کرنے والا میزائل تخلیق کر ڈالتا تھا۔ مقابلے کی اس فضا میں اچانک سوویت یونین نے 1963ء اپنی خلائی مشین لُونا نائن چاند پر اُتارنے کا دعویٰ کیا۔ سوویت یونین خلا کی تسخیر کی دوڑ میں امریکا سے آگے تھا۔ اس نے 1959ء ہی میں اپنی خلائی مشین لونا تھری چاند پر اُتارنے کا دعویٰ کیا تھا مگر لونا تھری کی چاند پر سینڈنگ ’’ کریش لینڈنگ‘‘ تھی۔ لیکن لونا نائن کی چاند پر لینڈنگ اصطلاح میں Soft Landing تھی۔ سوویت یونین کی اس خلائی چھلانگ نے امریکا کے صدر نکسن کی نیندیں اُڑا دیں۔ ان پر خلائی دوڑ میں سوویت یونین سے آگے نکلنے کا بھوت سوار ہوگیا۔ انہوں نے ایک اجلاس میں فرمایا کہ سوویت یونین نے چاند پر مشین اُتاری ہے ہم انسان کو اُتاریں گے۔ نکسن کو بتایا گیا کہ یہ ابھی ممکن ہی نہیں۔ امریکا کے پاس ایسی ٹیکنالوجی ہی نہیں جس کے ذریعے چاند پر انسان کو اُتارا جاسکے۔ مگر نکسن کا کہنا تھا کہ خلائی دوڑ میں سوویت یونین کی فتح امریکا کی عالمی ساکھ کو تباہ و برباد کردے گی۔ چناں چہ ہمیں جلد از جلد سوویت یونین پر سبقت حاصل کرنی ہوگی۔ اچانک کہیں سے تجویز آئی کہ چاند پر حقیقی آدمی نہیں اُتر سکتا تو نہ اُترے۔ امریکا کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں ایک نظری دھوکا یا Optic Iusion تخلیق کرے۔ یعنی وہ ہالی ووڈ کے کسی اچھے ڈائریکٹر کے ذریعے ایسی فلم بنوائے جس میں انسانوں کو چاند پر اُترتے دکھایا جائے۔ اس مہم میں خدشے اور اندیشے بہت تھے۔ راز فاش ہونے پر نکسن کا پورا سیاسی کیریئر دائو پر لگ سکتا تھا۔ مگر نکسن پر کمیونسٹ سوویت یونین کو شکست دینے کا جنون سوار تھا۔ اس نے کہا کچھ بھی ہوجائے ہم ایسا ہی کریں گے۔ چناں چہ سی آئی اے نے ہالی ووڈ کے ممتاز ڈائریکٹر اسٹینلے کیوبرک کو اس کام کے لیے منتخب کیا۔ کیوبرک نے اپنی فلم سازی کی غیر معمولی مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے نیل آرم اسٹرانگ اور اس کے ساتھی کو چاند پر اُترتے ہوئے دکھا دیا۔ ساری دنیا میں امریکا کی دھاک بیٹھ گئی جو اب تک بیٹھی ہوئی ہے۔ یہ تمام معلومات ایک فرانسیسی فلم ساز کی بنائی ہوئی دستاویزی فلم Dark Side of the moon میں موجود ہیں جو شاید اب بھی یوٹیوب پر کہیں موجود ہوسکتی ہے۔ اس دستاویزی فلم کی اہم ترین بات یہ ہے کہ دستاویزی فلم بنانے والے نے سارے انکشافات امریکا کے اعلیٰ ترین اہلکاروں سے کرائے ہیں۔ ان میں ہینری کسنجر، ڈونلڈ رمز فیلڈ اور ایگل وائن برگر جیسے ممتاز امریکی اہلکار شامل ہیں۔
ان حقائق سے صاف ظاہر ہے کہ مشین یا انسان کی ’’مُون لینڈنگ‘‘ کی حقیقی سائنسی اہمیت و افادیت کچھ بھی نہیں مگر ’’مون لینڈنگ‘‘ کے ذریعے بڑی طاقتیں ساری دنیا پر اپنی دھاک بیٹھاتی ہیں۔ مگر جیسا کہ ظاہر ہے مون لینڈنگ کا ’’نشہ‘‘ بڑا مہنگا نشہ ہے۔ بھارت کے اپنے دعوے کے مطابق اس نے چندریان ٹو پر 900 کروڑ روپے صرف کیے۔ یہ بہت بڑی رقم ہے اور صرف امریکا، روس اور چین ہی اس نشے کے متحمل ہوسکتے تھے۔ اس وقت مجموعی قومی پیداوار کے حوالے سے دنیا کے کئی ممالک بھارت سے آگے ہیں۔ مثلاً بھارت کی مجموعی قومی پیداوار ڈھائی ہزار ارب ڈالر ہے۔ اس کے برعکس جاپان کی مجموعی قومی پیداوار ساڑھے پانچ ہزار ارب ڈالر ہے۔ جاپان سائنس اور ٹیکنالوجی میں بھارت سے چالیس سال آگے ہے مگر جاپان نے آج تک چاند پر کوئی خلائی مشین
یا خلا نورد بھیجنے کی حماقت نہیں کی۔ جرمنی کی مجموعی قومی پیداوار ساڑھے چار ہزار ارب ڈالر ہے اور جرمنی سائنس اور ٹیکنالوجی میں بھارت سے 50 سال آگے ہے، مگر جرمنی نے بھی آج تک کوئی خلائی مشن چاند پر نہیں بھیجا۔ برطانیہ کی مجموعی قومی پیداوار تین ہزار ارب ڈالر سے زیادہ ہے اور برطانیہ بھی بھارت سے زیادہ ترقی یافتہ ہے مگر برطانیہ کو بھی آج تک کوئی ’’چندریان‘‘ چاند پر بھیجنے کا خیال نہیں آیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ممالک سپرپاور بننے کے خبط میں مبتلا نہیں۔ چناں چہ وہ اپنے قیمتی وسائل اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کرتے ہیں۔ مگر بھارت نہ سپر پاور ہے اور نہ مستقبل میں اس کے سپر پاور بننے کا کوئی امکان ہے مگر اس نے سپر پاور ہونے کی ’’Acting‘‘ پر 900 کروڑ روپے خرچ کر ڈالے۔ بھارت کی اقتصادی اور سماجی صورتِ حال ابتر ہے۔ بھارت میں 40 کروڑ سے زیادہ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔ بھارت میں 62 کروڑ انسانوں کے پاس بیت الخلا یعنی Toilets ہی نہیں ہیں۔ چناں چہ وہ پیشاب پاخانے کے لیے جنگلات، میدانوں یا گلیوں کو بروئے کار لاتے ہیں۔ بھارت کے لاکھوں قصبات اور دیہات میں صبح سویرے کہیں اُٹھ کر جانا بڑا تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ آپ کو راستے میں درجنوں خواتین و حضرات حوائج ضروریہ سے فارغ ہوتے ہوئے نظر آسکتے ہیں۔ چناں چہ کہیں آنے جانے والے لوگوں کو تقریباً آنکھیں بند کرکے راستے سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بھارت کو خلائی مشن سے ہزار گنا زیادہ ’’بیت الخلا مشن‘‘ کی ضرورت ہے۔ بھارت کی اصل ضرورت یہ ہے کہ وہ 900 کروڑ روپے سے غریبوں کی حالت درست کرتا۔ انہیں خط غربت سے اوپر اُٹھاتا مگر سپر پاور کی ’’ایکٹنگ‘‘ کے شوق نے بھارت کی قیادت کو اندھا کردیا اور اس نے 900 کروڑ روپے کی بڑی رقم ’’مون لینڈنگ‘‘ کے نشے پر برباد کردی۔ اس رقم سے ہزاروں اسکول بن سکتے تھے۔ لاکھوں بیت الخلا تعمیر ہوسکتے تھے۔ درجنوں بڑے اسپتال وجود میں آسکتے تھے۔ کروڑوں لوگوں کو صاف پانی مہیا ہوسکتا تھا۔ مگر ’’مون لینڈنگ‘‘ کا نشہ ہر حقیقت پر غالب آگیا۔ بھارت کا خلائی مشن چندریان اگر پوری طرح کامیاب بھی ہوجاتا تو عملاً اس سے بھارت کو کوئی خاص فائدہ نہ ہوتا۔
بس بھارت امریکا، روس اور چین کے بعد چاند پر لینڈ کرنے والا چوتھا ملک بن جاتا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ جاپان، جرمنی، فرانس، اٹلی اور برطانیہ بھی اب تک چاند پر نہیں پہنچے تو اس سے ان کی توقیر میں کیا کمی واقع ہوئی ہے؟۔
ہمارے ڈاکٹر عطا الرحمن بڑے قابل سائنس دان ہیں۔ مگر بدقسمتی سے وہ اتنے ’’سائنس پرست‘‘ ہیں کہ اتنے تو لوگ خدا پرست بھی نہیں ہوتے۔ سائنس کے میدان میں ترقی ضروری ہے مگر مون لینڈنگ کے نشے کی حوصلہ افزائی کوئی اچھی بات نہیں۔ ڈاکٹر صاحب چیزوں کو ان کے صحیح تناظر میں دیکھا اور بیان کیا کریں۔ نمرہ سلیم کا یہ خیال درست نہیں کہ خلا میں سرحدیں تحلیل ہوجاتی ہیں۔ بھارت چاند پر پہنچ گیا تو وہاں بھی اکھنڈ بھارت کی سیاست شروع کردے گا۔