گول میز کانفرنس
اس نئے اتحاد نے جمہوری مجلس عمل (DAC ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی) کے نام سے کام شروع کیا۔ ملک گیر ہڑتالیں ہوئیں‘ جلسوں اور جلوسوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ بعض جگہ تشدد اور توڑ پھوڑ کی وارداتیں بھی ہوئیں۔ غرض کے ملک کا بچہ بچہ ایوب خان کی آمریت کے خلاف صف آرا ہوگیا۔ آخر کار مجبور ہوکر ایوب خان نے فروری۱۹۶۹ء میں جمہوری مجلس عمل (DAC) کے رہنمائوں کے ساتھ ایک گول میز کانفرنس بلائی۔ جس میں جماعت اسلامی کی نمائندگی سید مودودیؒ اور پروفیسر غلام اعظم نے کی، لیکن شیخ مجیب الرحمن کی عدم شرکت کی وجہ سے جو اگر تلہ سازش کیس میں زیر حراست تھے‘ بعض رہنمائوں خصوصاً مسلم لیگ کے سربراہ میاں ممتاز محمد خاں دولتانہ وغیرہ نے کانفرنس میں شرکت سے انکار کردیا۔ مارچ کے دوسرے ہفتے میں شیخ مجیب الرحمن کی رہائی کے بعد ۱۰؍مارچ کو یہ کانفرنس ہوئی۔ مجلس عمل کے دونوں مطالبے یعنی بالغ رائے دہی کے تحت انتخابات اور پارلیمانی طرز حکومت مان لیے گئے۔
بھٹو بھاشانی گٹھ جوڑ
بھٹو اور بھاشانی اپنے فاشی ہتھکنڈوں کے ذریعے جمہوری جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ جب مجلس عمل ایوب خان کے ساتھ مذاکرات میں مشغول تھی زیڈ۔ اے بھٹو نے لیاقت باغ راولپنڈی میں تقریر کرتے ہوئے صدر سے فوری استعفے کا مطالبہ کردیا عبد الحمید بھاشانی بھٹو سے بھی دوہاتھ آگے تھے۔ مشرقی پاکستان میں لا قانونیت پھیلانے‘ آتشزنی کی وارداتیں کرنے اور ماردھاڑ کے بعد وہ مارچ میں مغربی پاکستان آئے اور ۸؍مارچ ۱۹۶۹ء کو موچی دروازے میں نیشنل عوامی پارٹی کے جلسے سے خطاب کیا۔ جلسے میں گڑ بڑ ہوئی جس کے بعد بھاشانی کے حامیوں نے بھٹو کے حامیوں کے بجائے جن سے جھگڑا ہوا تھا اور مخالفانہ نعرے بازی ہوئی تھی، جماعت اسلامی کے دفتر واقع نیلا گنبد لاہور پر حملہ کرکے دفتر کا تالا توڑا جماعت کے ریکارڈ‘ لٹریچر اور قرآن پاک اور احادیث کے نسخوں کو باہر پھینک کر آگ لگادی۔ اس بے حرمتی اور لاقانونیت پر لاہور کے شہری لرز اٹھے۔ اس سے پہلے اخبارات بھاشانی کی یہ دھمکی شائع کرچکے تھے کہ اگر ہم عبد الصبور خاں اور دوسروں کے گھروں کو آگ لگاسکتے ہیں تو مودودیؒ کا گھر بھی جلا سکتے ہیں۔
کشمیری مسلمانوں پر بھارت کے سفاک مظالم اور جماعت اسلامی کے اقدامات
جنگ بندی کے بعد بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر ظلم و قہر اور سفاکی کی انتہا کردی۔ مجاہدین کی تلاش کے بہانے گھروں کی تلاشیاں‘ مارپٹ‘ آتش زنی مسلمانوں کو کمروں میں بند کرکے آگ لگادینا‘ عورتوں کا اغوا‘ مردوں اور عورتوں کے اعضا کاٹ کر زخموں پر نمک پاشی‘ زمین میں زندہ گاڑ کر تڑپاتڑپا کر مارنا‘ نعرے لگانے کے الزام میں بچوں کی زبانیں کاٹ دینا وغیرہ ایسے بھیانک مظالم کیے گئے کہ انسانیت لرز گئی۔ مرے پہ سودرّے کے مترادف مجاہدین کا ساتھ دینے کے جھوٹے الزامات لگاکر ہزاروں بے کس مسلمان کشمیریوں کو سرحد سے آزاد کشمیر میں دھکیل دیا۔ ان بے خانما ں کشمیریوں کے لیے جماعت اسلامی نے نکیال‘ کھوٹی اور کوٹلی میں ڈسپنسریاں کھولیں۔
مولانا مودودیؒ کا دورہ آزاد کشمیر
امیر جماعت اسلامی پاکستان سید مودودیؒ اپنے رفقا کے ہمراہ ۲۵؍ نومبر ۱۹۶۵ء کو ایک ہفتے کے دورے پر آزاد کشمیر پہنچے تو انھوں نے مظلوم مہاجرین کی زبانی ان کی دکھ بھری داستانیں سنیں۔ سید صاحب مظفر آباد پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔ نماز جمعہ کے بعد کالج گراؤنڈ میں ان کی تقریر تھی۔ جلسے کی صدارت سردار عبد القیوم خان کررہے تھے۔ انھوں نے اپنی تقریر میں کہا کشمیر کے لیے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ناقابل فراموش کام کیا ہے۔ مہاجرین کے لیے جماعت اسلامی نے جو کام کیا ہے اسے کبھی نہیں بھول سکتے۔ سید مودودودیؒ نے اپنے خطاب میں بھارت‘روس اور امریکا کے کردار کا مفصل جائزہ لے کرکہا کہ کشمیر کے حل کی صرف ایک صورت رہ جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اللہ کے بھروسے پر اٹھیں اور اپنے دست و بازو سے اس مسئلے کو حل کریں۔ کشمیر کے مسئلے کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے جہاد۔ مظفرآباد ریڈیو سے سید مودودیؒ نے اس موضوع سے ایک اہم تقریر نشر کی۔
(جاری ہے)