پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک اور رہنما خورشید شاہ کو بھی گرفتار کرلیا گیا، ان کی گرفتاری اسلام آباد کے علاقے بنی گالا سے عمل میں آئی ہے۔ وہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے گئے تھے۔ خورشید شاہ کی گرفتاری نیب سکھر کی طرف سے عمل میں آئی ہے جس نے خورشید شاہ کو طلب کیا تھا مگر وہ بھی وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی طرح حاضر نہیں ہوئے۔ چنانچہ نیب کی ٹیم نے انہیں اسلام آباد جا کر گرفتار کیا۔ ممکن ہے اب پیپلز پارٹی سندھ کے رہنما اسلام آباد جانے سے کترانے لگیں۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے یہ اعتراض کیا تھا کہ آصف علی زرداری پر مقدمہ اسلام آباد میں کیوں چل رہا ہے، سندھ میں کیوں نہیں۔ ایسا ہے تو پھر پنجاب سے تعلق رکھنے والوں کے مقدمات سندھ میں چلائے جائیں۔ دوسری طرف یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہونے کی وجہ سے پارٹی کے ملزموں کو پوری سہولت مل سکتی ہے۔ اس کی واضح مثال خود جناب آصف علی زرداری ہیں جو بظاہر 11 سال جیل میں رہے اور جیل میں ہوتے ہوئے بھی وہ نہ صرف باپ بنے بلکہ ریکارڈ گواہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کی سالگرہ میں بھی شرکت کرتے رہے۔ ضیاء الدین اسپتال کلفٹن میں ان کے لیے پورا فلور مختص تھا اور ان کی دلچسپی کی تمام سہولیات انہیں میسر تھیں۔ سندھ کی جیل میں شرجیل میمن کو بھی ایسے مشروب دستیاب تھے جو شہد میں بدل گئے۔ دوسری طرف کہا جاسکتا ہے کہ پنجاب میں جن عناصر کو اب تک رسوخ حاصل ہے وہ اپنے قیدیوں کا خیال رکھتے ہیں۔ آصف علی زرداری اور فریال تالپور کے بعد خورشید شاہ کی گرفتاری حزب اختلاف کے لیے ایک اور جواز فراہم کررہی ہے کہ احتساب یکطرفہ ہو رہا ہے اور صرف حزب اختلاف کے رہنما پکڑے جارہے ہیں۔ خورشید شاہ کو آمدنی سے زیادہ اثاثے بنانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ نیب کی رپورٹ کے مطابق خورشید شاہ کئی سو ایکڑ زمین اور کئی بنگلوں کے مالک ہیں۔ ان پر سیکڑوں افراد کو اہلیت سے قطع نظر ملازمتیں دینے کا الزام بھی ہے۔ اگر ان کے اثاثے آمدنی کے مطابق نہیں تو انہیں وضاحت کردینی چاہیے کہ یہ اثاثے انہوں نے کیسے بنائے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی ملازمت کا آغاز سکھر میں ایک میٹر ریڈر کے طور پر کیا اور ان کے والد بھی کوئی جاگیردار، زمیندار یا صنعت کار نہیں تھے۔ بطور رکن قومی اسمبلی ان کی تنخواہ یا آمدنی دو، ڈھائی لاکھ روپے ماہانہ سے زاید نہیں ہوگی۔ چنانچہ یہ سوال تو اٹھے گا کہ یہ زمین، جائداد کہاں سے آئی۔ اس کا جواب ہے تو خورشید شاہ دے کر جان چھڑائیں۔ ہر گرفتاری کو سیاسی انتقام نہیں کہا جاسکتا لیکن خورشید شاہ کی گرفتاری کے لیے جس وقت کا انتخاب کیا گیا وہ بہت غلط ہے۔ خورشید شاہ کہیں بھاگے نہیں جارہے تھے، عمران خان اقوام متحدہ سے خطاب کرنے جارہے ہیں۔ اس موقع پر یکجہتی اور اتحاد کے مظاہرے کی ضرورت زیادہ تھی۔ ابھی وزیراعلیٰ سندھ کے سر پر بھی نیب کی تلوار لٹک رہی ہے۔