امریکا طالبان مذاکرات، ٹوٹی کہاں کمند؟

426

سترہ برس کی لڑائی اور ناخوش گوار تجربات کے طویل سفر کے بعد امریکا نے طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا راستہ اپنایا تھا۔ اسے امریکا کی سترہ برس کی سب سے بہتر اور مناسب حکمت عملی گردانا جا رہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ دیوار سے سرپھوڑنے کے بجائے امریکا نے پہلی بار دیوار پر لکھی عبارت پڑھنے کا راستہ اپنالیا ہے۔ افغانستان میں مزاحم طاقت طالبان پر یہ امریکا کا احسان نہیں تھا کہ وہ ان کے کشکول میں مذاکرات کی خیرات کے سکے ڈالنے پر آمادہ ہو رہا تھا نہ یہ کوئی خوشی کا سودا تھا۔ طالبان تو اسی امید پر سترہ برس تک لڑ رہے تھے کہ ایک روز وہ امریکا کو تھکا کر مذاکرات کی میز پر لائیں گے مگر امریکا کو یہ انداز نہیں تھا کہ نیپام اور کلسٹر اور ’’بموں کی ماں‘‘ کے استعمال کے بعد بھی افغانستان ان کی حتمی فتح کی خواہش سے کوسوں دور رہے گا۔ امریکا کا ہمیشہ سے یہ خیال تھا کہ وہ طالبان کو فضائی بمباری سے اس قدر کمزور کر دے گا کہ اول تو ان کے ساتھ مذاکرات کا لمحہ ہی نہیں آئے گا اور اگر آیا بھی تو ایک روز وہ کابل حکومت کے ساتھ بیٹھ کر معاملات طے کرنے پر مجبور ہوں گے۔ امریکا اپنا دامن بچا کر بھارت کی طرح پس پردہ کھلاڑی کا کردار اپنا لے گا۔ افغانستان سے اس کی فوجوں کا انخلا بھی ہوگا اور چند ہزار فوجیوں کی موجودگی کی صورت میں انخلا نہیں بھی ہوگا۔ یوں انخلا کا مطالبہ کرنے والوں کے لیے یہ انخلا ہوگا اور امریکیوں کو اپنا مہمان اور محافظ بنائے رکھنے کے خواہش مند کابل کے حکمرانوں کے لیے انخلا کے بجائے یہ موجودگی تسلی اور تشفی کا سامان ہوگی۔ وقت سب سے بڑا اتالیق ہے اور وقت نے امریکا کو یہ حقیقت باور کرادی کہ طالبان کی زمینی حقیقت کو تسلیم کیے بغیر وہ افغانستان سے اپنا دامن اور گریباں بچا کر نہیں جا سکتا۔ اس لیے دوحہ مذاکرات کی سیج سجائی گئی۔ دوحہ مذاکرات امریکا کی طرف سے طالبان کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرنے کا آغاز تھا۔ افغان حکومت نے اس کوشش کو پہلے ہی مشکوک نظروں سے دیکھنے کی روش اپنا لی اور دوحہ مذاکرات کے خیمے میں ہر ممکن طریقے سے سر داخل کرنے کی کوشش کی مگر طالبان نے افغان حکومت کو ان مذاکرات میں شامل کرنے سے انکار کیا۔ ان کے خیال میں یہ حملہ آور اور مزاحم کے درمیان مکالمہ ہے اس کے درمیان والی مخلوق کا ان مذاکرات سے کوئی سروکار نہیںہونا چاہیے۔
دوحہ مذاکرات کا یہ عمل مختلف ادوار کی صورت میں آگے بڑھتا چلا گیا۔ امریکا نے ان مذاکرات کی نمائندگی زلمے خلیل زاد کی صورت ایک ایسے افغان نژاد امریکی کو سونپی جو سترہ برس میں امریکا کی سخت گیر اسٹیبلشمنٹ کی ترجمانی کرتے ہوئے افغان مزاحمت کو دہشت گردی اور اسے پاکستان کی پیدا کردہ تحریک قرار دیتا رہا۔ اس طرح زلمے خلیل زاد امریکا کی سخت گیر اشرافیہ، کابل انتظامیہ اور بھارت کے موقف کے کھلے حامی رہے تھے۔ وہ ان لوگوں میں شامل تھے جو یہ کہا کرتے تھے کہ امریکا کو افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان میں داخل ہو کر طالبان کے ٹھکانوں پر حملے کرنے چاہئیں۔ زلمے خلیل زاد کا یہ تصور واشنگٹن سے کابل اور دہلی تک کے دائرے میں محو سفر رہنے کی بنا پر محدود اور یک طرفہ تھا۔ جوں جوں وہ اپنے ہم وطن طالبان کے ساتھ مذاکرات کرتے گئے تو انہیں اندازہ ہوا کہ طالبان ایک حقیقت ہیں اور یہ محض پاکستانی اداروں کا پیدا کردہ کوئی کردار نہیں۔ اسی لیے وہ ایک انتہا سے اعتدال کی طرف آنے لگے اور طالبان کے موقف کو سمونے کی کوشش کرتے رہے۔ دس ماہ تک قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جا ری رہا۔ اس عرصے میں مذاکرات کی نو ادوار ہوئے۔ امریکا اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کے اس سلسلے پر افغان حکومت چیں بہ جبیں رہی کیونکہ ان کے خیال میں مذاکرات کا یہ عمل طالبان کی حیثیت اور وزن کو بڑھا اور افغان حکومت کا وزن گھٹا رہا تھا۔ اس سے افغان عوام طالبان کو مستقبل کی حکومت اور فیصلہ کن طاقت سمجھنے لگے تھے۔ یہ افغان حکومت ہی کی ناراضی اور پریشانی نہیں تھی بلکہ اس میں بھارت اور امریکا کی ایک سخت گیر لابی کا کرب بھی شامل تھا۔ بھارت کے اخبارات یہ لکھ رہے تھے کہ طالبان کی اقتدار میں واپسی بھارت کے لیے ڈراونا خواب ہے۔ افغان حکومت اور بھارت کا ہمیشہ سے یہ خیال رہا ہے کہ امریکا پاکستان پر ڈومور کا دبائو جاری رکھ کر طالبان کے اثر رسوخ کو کم کر سکتا ہے اور اس کا مطلب طالبان کی سودے بازی کی صلاحیت میں از خود کمی ہوگا۔ دوحہ مذاکرات کے دوران ہی میں امریکا اور طالبان نے یہ حیران کن اعلان کر دیا کہ فریقین کے درمیان اٹھانوے فی صد نکات پر اتفاق ہو گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ خبریں بھی سامنے آنے لگیں کہ امریکا نے طالبان کے ساتھ معاہدے میں ’’اسلامی امارت افغانستان‘‘ کی اصطلاح کو قبول کر لیا ہے۔ یہ اصطلاح بتارہی تھی کہ امریکا طالبان کے ساتھ ایک ملیشیا کے بجائے ایک ریاست یا ریاستی طاقت کے طور پر معاملات طے کر کے اپنا دامن چھڑا کر جانا چاہتا ہے۔ افغان حکومت نے اس معاہدے کے مندرجات پوری طرح سامنے آنے سے پہلے ہی اسے مسترد کیا اور اشرف غنی نے اپنا دورہ امریکا منسوخ کردیا۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بھی ایسے مذاکرات پر دستخط کرنے سے انکا ر کیا اور اس حوالے سے اشرف غنی اور زلمے خلیل زاد کی تلخ ملاقات کی خبریں بھی میڈیا کی زینت بنیں۔ اس ماحول میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان سے مذاکرات منسوخ کرنے کا اعلان کیا اور اس کے لیے کابل میں ہونے والے ایک حملے کو بنیاد بنایا گیا جس میں ایک امریکی اور گیارہ عام افراد مارے گئے تھے۔ امریکا اور طالبان کے درمیان اٹھانوے فی صد نکات پر اتفاق کے بعد اختلاف کے اچانک اُبھر کر سارے عمل کو ختم کرنے پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ
قسمت کی خوبی دیکھیے ٹوٹی کہاں کمند
د وچار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا
مذاکرات کے خاتمے سے خطے میں امن کی امید کا چراغ ایک بار پھر ٹمٹمانے لگ گیا ہے مگر اس مرحلے پر جب صلح کا جام امریکا اور طالبان دونوں کے لبوں کے قریب اس انداز سے آچکا تھا کہ دونوں نے اس کا ذائقہ اور شیرینی محسوس کی ہوگی، دونوں کا مذاکرات سے کلی انکار اور فرار شاید ممکن نہ ہو۔ طالبان نے صلح کے جام میں اسلامی امارت افغانستان کی جھلک دیکھ لی ہے تو امریکا نے اسی جام میں اپنی شکست کو فتح کا نہ سہی عزت کا جامہ پہنتے دیکھ لیا ہے دونوں زیادہ دیر ترک تعلقات پر قائم نہیں رہ سکیں گے۔