اسلام آباد(نمائندہ جسارت) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ سیاسی انجینئرنگ کے لیے احتساب کے عمل میں یکطرفہ جھکاؤ کا تاثر اوراختلافی آوازدبانا جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہے، اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے ۔ان کے بقول شہریوں سے لوٹی ہوئی دولت کی واپسی ایک اچھا عمل ہے لیکن غیر جانبداری کے بغیر یہ اقدام معاشرے کے لیے زیادہ مہلک ہوگا۔نئے عدالتی سال کی تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس نے کہا کہ قلیل المدتی سیاسی فائدے کے لیے آئینی حقوق پر سمجھوتا نہیں ہونا چاہیے، جمہوریت میں دور اندیشی اور برداشت لازمی ہے، اختلاف اور برداشت کے بغیر جبر کا نظام ہوتا ہے، ماضی میں ہم نے دیکھا کہ اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہم آئین اور قانون کے مطابق اپنا کردار ادا کرنے کے لیے پرعزم ہیں، عدالتی عمل میں دلچسپی رکھنے والے درخواست دائر کریں جسے سن کر فیصلہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ اپنی تقریر میں کہہ چکا ہوں کہ سوموٹو کا اختیار قومی اہمیت کے معاملے پر استعمال کیا جائے گاجو کسی کے مطالبے پرلیا گیا وہ سوموٹو نوٹس نہیں ہوتا، جب ضروری ہوا یہ عدالت سو موٹو نوٹس لے گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ ازخودنوٹس کے حوالے سے قواعدکا مسودہ آئندہ فل کورٹ میٹنگ تک تیار کرلیا جائے گا، اس معاملے کو بھی ایک دفعہ میں ہمیشہ کے لیے حل کر لیا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ آئین صدر مملکت کو اختیار دیتا ہے کہ وہ کونسل کو کسی جج کے کنڈکٹ کی تحقیقات کی ہدایت کرے، سپریم جوڈیشل کونسل اس طرز کی آئینی ہدایات سے صرف نظر نہیں کرسکتی، صدر مملکت کی کسی جج کے خلاف شکایت سپریم جوڈیشل کونسل کی رائے پر اثر انداز نہیں ہوتی، کونسل اپنی کارروائی میں آزاد اور بااختیارہے، صدرمملکت کی جانب سے بھجوائے گئے دونوں ریفرنسز پر کونسل اپنی کارروائی کررہی ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کے تمام ممبران اور چیئرمین اپنے حلف پر قائم ہیں، کونسل کسی بھی قسم کے خوف، بدنیتی یا دباؤ کے بغیر اپنا کام جاری رکھے گی، قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی کے علاوہ کونسل سے کوئی بھی توقع نہ رکھی جائے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ اختلافی آواز کو دبانے کے حوالے سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں، کسی کی آواز یا رائے کو دبانا بد اعتمادی کو جنم دیتا ہے اور بداعتمادی سے پیدا ہونے والی بے چینی جمہوری نظام کے لیے خطرہ ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انصاف کے سوا سپریم جوڈیشل کونسل سے کوئی توقع نہ رکھیں۔انہوں نے بتایا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل نے کارروائی عدالت عظمیٰمیں آئینی درخواستیں دائر کرنے کے سبب روک دی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ بخوبی آگاہ ہیں کہ معاشرے کا ایک طبقہ جوڈیشل ایکٹوازم میں دلچسپی نہ لینے پر خوش نہیں، جوڈیشل ایکٹوازم کے بجائے عدالت عظمیٰعملی فعال جوڈیشلزم بڑھا رہی ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ نئے عدالتی سال کی عدالت عظمیٰ میں ہونے والی تقریب میں جسٹس قاضی فائر عیسیٰ بھی شریک تھے۔نئے عدالتی سال کے موقع پر سپریم کورٹ کی جانب سے کاز لسٹ جاری کی گئی جس کے مطابق بینچ 4 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بطور سربراہ شامل کیا گیا ہے، ان کے ساتھ جسٹس مقبول باقر اور جسٹس اعجاز الاحسن بینچ کا حصہ ہیں۔یاد رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدراتی ریفرنس پر سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا تھا۔
چیف جسٹس