جماعت اسلامی کا موجودہ نظام اور افرادی قوت
جماعت اسلامی کا مرکزی نظام امیر جماعت‘ مرکزی مجلس شوریٰ‘ مجلس عاملہ‘ قیمّ جماعت‘ اور سات مرکزی شعبوں پر مشتمل ہے۔ جن میں شعبہ تنظیم جماعت‘ شعبہ مالیات‘ شعبہ نشرواشاعت‘ شعبہ پارلیمانی امور‘ دارالعروبہ اور شعبہ استفسارات (رسائل وسائل) شامل ہیں اور اس کے علاوہ شعبہ انتخابات بھی عنقریب کام شروع کردے گا۔
امیر جماعت کا انتخاب ہر پانچ سال بعد تمام ارکان جماعت کے بلاواسطہ ووٹوں سے ہوتا ہے۔ جماعت کے نظام اور تمام معاملات میں امیر جماعت کی مدد اور مشورے کے لیے مرکزی مجلس شوریٰ موجود ہے‘ جو جماعت کے بلاواسطہ منتخب کردہ پچاس ارکان پر مشتمل ہے۔ مجلس شوریٰ کاانتخاب ہر تین سال بعد ہوتا ہے۔ مرکزی مجلس شوریٰ دو تہائی ووٹوں کی اکثریت سے امیر جماعت کو معزول کرسکتی ہے۔ امیر جماعت مجلس شوریٰ کے منتخب ارکان میں سے بارہ ارکان پر مشتمل مجلس عاملہ مقرر کرنے کا اختیار رکھتا ہے‘ جو مجلس شوریٰ کے اجلاس منعقد نہ ہونے کی صورت میں مجلس شوریٰ کے تمام اختیارات استعمال کرسکتی ہے۔
جماعت کی موجودہ قوت
’’۳۰؍ ستمبر۱۹۶۳ء تک کے اعداد و شمار کے مطابق جماعت کے کل ارکان کی تعداد۶۰۵,۱ اور متفقین کی تعداد ۴۳۱,۴۳ ہے۔ مقامی جماعتوں کی تعداد ۲۲۷ اور حلقہ ہائے متفقین کی تعداد ۵۶۲,۱ ہے۔ کتب خانوں (لائبریریوں) کی تعداد ۵۵۵ اور شفاخانوں کی تعداد ۳۱ہے۔ کراچی میں ایک میت گاڑی ہے‘ جو کورنگی کی غریب آبادی کے لیے وقف ہے۔ مقامی جماعتیں اور حلقہ ہائے متفقین ملک میں سرگرم عمل ہیں‘ جن کے ۴۰ ہزار سے زیادہ افراد‘ بغیر کسی دنیوی غرض یا خوف کے صرف اللہ تعالیٰ کی خاطر اقامت دین کی جدوجہد میں اپنے اوقات‘ محنت اور سرمائے اور دوسرے ذرائع سے جماعت کی مدد کررہے ہیں۔ یہ لوگ عوام میں دین کا شعورپیداکرنے‘ مسجدوںکی اصلاح‘ قصبات اور دیہات میں دارلمطالعوں کا قیام‘ تعلیم اوراخلاقی تربیت کے لیے پرائمری‘ ہائی اسکول اور مدرسے قائم کرنے‘ فواحش و منکرات کے سدباب کرنے‘ عام طورپر لوگوں کو ظلم و ستم سے بچانے کی کوشش کرنے‘ دیہات میں راستوں کی درستگی‘ صفائی اور حفظان صحت کی کوششیں کرنے اور یتیموں‘ بیوائوں‘ معذوروں اور غریب طلبہ کی ہر ممکن مدد کرنے میں مصروف ہیں‘‘۔
جماعت اسلامی کی دستوری جدوجہد۔سال بہ سال
’’جماعت اسلامی پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی اسلامی دستور کی تیاری اور اس کے نفاذ کے لیے کوشاں رہی ہے۔ قرارداد مقاصد کی منظوری سے لے کر ۱۹۵۴ء تک ملک کا دستور بن کر بالکل تیار ہوگیا تھا اور اس کے نفاذ کی تاریخ کا اعلان بھی ہوگیا تھا تو گورنر جنرل غلام محمد نے ۲۴؍ اکتوبر۱۹۵۴ء کی رات کو اچانک اسمبلی توڑ دی اور پورے ملک میں مارشل لاء کی سی کیفیت پیدا کردی۔ جماعت اسلامی نے اس اقدام کو برملا چیلنج کیا اور جماعت اسلامی کی اخلاقی اور مالی مدد کے ذریعے ہی اسپیکر مولوی تمیز الدین خان نے اسے سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔ گورنر جنرل کے احکامات کو ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا‘ مگر اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس‘ محمد منیر نے گورنر جنرل غلام محمد کے اس ناجائز حکم کو نامعلوم وجوہ کی بنا پر برقرار رکھا اور نظریہ ضرورت‘ ایجاد کرکے اپیل خارج کردی‘‘۔
’’ عدالت کے حکم کے بموجب دستور ساز اسمبلی کے لیے نئے انتخابات ہوئے تو جماعت اسلامی نے اسلامی دستور سازی کے لیے ایک منظم ملک گیر مہم شروع کی۔ جماعت کے کارکنان فرداً فرداً دستور ساز اسمبلی کے اراکین سے ملے اور اسلامی اصولوں پر مبنی دستور کی تیاری کا ان سے تحریری عہد لیا۔ امیر جماعت نے مغربی اور مشرقی پاکستان کے دورے کیے۔ دونوں حصوں کے علمائے کرام کے اجتماعات میں متفقہ ترامیم مرتب کرکے دستور ساز اسمبلی کو بھجوائیں اور آئین کے مسودے کو اسلامی بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ انھی کوششوں اور جدوجہد کے نتیجے میں ۲۹؍ فروری ۱۹۵۶ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور اسمبلی نے منظور کرلیا اور ۲۳؍ مارچ ۱۹۵۶ء کو یہ نافذ ہو گیا۔ نئے دستور کے تحت پہلے انتخابات سے پہلے ہی دستور کو اسی صدر نے توڑ دیا جس نے اس کی پاسداری کا عہد کیا تھا۔ پارلیمنٹ برخاست اور تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کردی گئی۔ اس واقعے کے بعد ۴۴ مہینے ایسے گزرے جن میں جماعت اسلامی کالعدم رہی۔ اس لیے ۸؍ اکتوبر ۱۹۵۸ء سے ۱۶؍ جولائی ۱۹۶۴ء تک کا زمانہ جماعت کی تاریخ سے خارج ہے‘ جماعت کا کوئی تنظیمی کام نہ ہوا‘‘۔
(جاری ہے)