مودی اور انگاروںکا کھیل

698

قیام پاکستان سے قبل ہی بھارت میں انتہا پسند ہندوئوں کا مقبول نعرہ ’’ہندو ہندی ہندوستان مسلم جائے عربستان‘‘ ہوا کرتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد اس نعرے میں ’’مسلم جائے پاکستان‘‘ کی ترمیم کر دی گئی۔ اس نعرے کی تکمیل کے لیے انتہا پسند ہندئووں کا پہلا نشانہ اور ہدف مسلم اکثریتی ریاست جموں وکشمیر تھی۔ انتہا پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ نے انیس سو پچاس ہی میں اپنے انتخابی منشور میں کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کا نکتہ شامل کیا۔ بعد کے تمام ادوار میں بھارت کا کٹر پنتھی ذہن قدم بقدم اس سمت آگے بڑھتا چلا گیا۔ کشمیر کو کیک کی طرح ٹکڑوں میں بانٹ کر ہضم کرنے کی حتمی کوشش پانچ اگست کو ہوئی۔ یہ سلسلہ یہیں رکتا ہوا نظر نہیں آتا بلکہ بھارت ایک سخت گیر ہندو ریاست کے طور پر تیزی سے اپنی شناخت قائم کرتا جا رہا ہے۔ پہلے جو سرگرمیاں ڈھکے چھپے انداز میں جاری تھیں اب وہ ریاستی سرپرستی میں تیزی کے ساتھ کسی رکاوٹ اور ڈر خوف کے بغیر جاری ہیں۔ یہ انداز بتارہا ہے کہ بھارت اپنی کثیر القومی شناخت اور پلورل ازم (تکثیریت) کو ترک کرکے وحدانی طرز حکومت اور ایک مضبوط ہندو مرکزیت کا حامل ملک بننے کی راہ پر ہے۔ کشمیر کے بعد بھارت میں خصوصی شناخت کی حامل دوسری ریاستوں پر ہاتھ صاف کیے جانے کی تیاریاں دکھائی دے رہی ہیں جن میں ناگالینڈ، گوا اور کئی دوسری ریاستیں شامل ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کے بعد سکھ اور عیسائی بھی اس دست درازی کی زد میں آنے جا رہے ہیں یہ احساس سکھ کمیونٹی کو بھی ہورہا ہے اور وہ اسی لیے خالصتان کی مہم تیز کرتے نظر آنے کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کے ساتھ دنیا کے ہر کونے میں کھڑے نظر آرہے ہیں۔ سکھ یہ حقیقت جان گئے ہیں کہ کشمیری آج الگ شناخت کی حامل تمام قومیتوں اور مذہبی اقلیتوں کی بقا اور سلامتی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
کشمیر کا الگ پرچم برداشت نہ کرنے والا بھارت ریاست گوا کا لہراتا پرچم کیوں کر ہضم کر سکتاہے۔ عین ممکن ہے ہندووں کے معاملے میں بھارتی حکومت کشمیر سے الگ میعار اپنائے مگر اپنی نئی ضرورت کے تحت بھارت کے نظام اور جغرافیے پر سخت گرفت قائم کرنے کا جو جنون بھارتی حکمرانوں کے سر پر طاری ہو چکا ہے وہ انہیں انجام سے بیگانہ اور بے خبر رکھ کر حماقتوں کی انجانی راہوں پر گامزن رکھے گا۔ آسام میں بیک جنبش قلم انیس لاکھ باشندوں کی شناخت کے آگے سوالیہ نشان لگادیا گیا اور ان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ ہندوستان کی آزادی کے علم برداروں مہاتما گاندھی اور پنڈت نہرو نے نو آزاد ملک کے خدوخال ایک کثیر القومی اور سیکولر ملک کے انداز میں تراشے تھے۔ جس میں نام کی حد تک ہی سہی اقلیتوں کے لیے سانس لینے اور اپنی شناخت کے ساتھ زندہ رہنے کی گنجائش موجود تھی۔ اسی لیے اس خانے میں مولانا ابوالکلام آزاد، ذاکر حسین اور عبدالکلام جیسے مسلمان راہنما بھی بخوشی سما جاتے تھے مگر اب شاید بھارت اس ماضی سے اپنا تعلق توڑ کر ایک ٹھیٹھ ہندو ریاست کے طور پر آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ جس میں تنوع اور رنگا رنگی کی گنجائش روز بروز کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے۔ کشمیر کی خصوصی شناخت کے ساتھ چھیڑ کر بھارتی حکومت نے ’’پنڈورہ باکس‘‘ یعنی بلائوں کے صندوق کا ڈھکن کھول دیا ہے۔ جس سے بلائیں نکل کر اب اپنا حساب برابر کرتی جائیں گی۔
مسلم یونیورسٹی حیدرآباد میں طلبہ کے ایک جلوس میں آزادی کے نعروں کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکی ہے اور بھارتی میڈیا بھی اس آزادی کے ان نعروں پر سوال اُٹھا چکا ہے۔ ریاست کیرالہ میں سلمان آرٹس اینڈ سائنس کالج میں پاکستان کا پرچم لہرانے کا واقعہ ہوا جس کے بعد ایک طالب علم کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ پچیس طلبہ کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ کشمیر کی شناخت پر حملے کے اثرات داخلی نہیں بلکہ بیرونی ہیں۔ پاکستان اس مسئلے کو پوری قوت سے اُٹھائے ہوئے۔ عالمی اداروں، عالمی راہنمائوں اور عالمی ذرائع ابلاغ میں کشمیر موضوع بحث ہے۔ کشمیر میں بھارت کا سیکولر، جمہوری اور کثیر القومی ہونے کا تاثر اور تصویر بری طرح بکھر چکی ہے۔ اوپر سے عمران خان دنیا کو بھارت کی طرف متوجہ کرکے باربار ہٹلر اور مسولینی کی یادیں ذہنوں میں تازہ کر رہے ہیں۔ گزشتہ دو عشروں سے اسلامی شدت پسندی اور دہشت گردی کا ڈھول پیٹنے والوں کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ دنیا کے ایک اہم خطے میں ہندو شدت پسندی کا خطرہ اُبھر رہا ہے یہ اس لحاظ سے زیادہ خطرناک ہے کہ ایک پوری ریاست اس شدت کی لپیٹ میں آچکی ہے۔ باالفاظ دیگر ہندو شدت پسندی کی سوچ نے دنیا کی ایک بڑی ریاست کو اپنے حصار میں لے لیا ہے۔
کشمیر کا زخم ابھی رس ہی رہا ہے کہ آسام کا مسئلہ شروع ہوگیا ہے جہاں نیشنل رجسٹر آف سٹیزن سے انیس لاکھ چھ ہزار چھ سو ستاون افراد کی شہریت ہی خارج کر دی گئی ہے۔ ان میں اکثریت بنگلا دیشی مسلمانوں کی ہے۔ ان لوگوں کو رفتہ رفتہ بہت سے حقوق سے محروم کر دیا جائے گا۔ بنگلا دیش نے پہلے ہی ان لوگوں کی حمایت وقبولیت سے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں۔ بنگلا دیشی حکومت میانمر کے مسلمانوں کے معاملے میں یہی اغماض برت چکی ہے۔ شاید بنگلا دیش جیسے ملکوں کے انہی رویوں کو دیکھ کر پاکستان کی قدر وقیمت کا احساس ہوتا ہے۔ بھارت کے ایک سیاست دان نے آسام کے حوالے سے بہت چونکا دینے والی بات کی ہے کہ بھارت آسام میں میانمر کی طرح بے وطن مسلمانوں کا نیا گروہ پیدا کرے گا۔ کشمیرکے حصے بخرے کرنے اور شناخت چھین لینے کے بعد ہماچل پردیش، ناگالینڈ، سکم، منی پور، میزورام اور گوا کی خصوصی شناخت ختم نہ کی گئی تو یہ تاثر پختہ تر ہوگا کہ بھارتی حکومت کی اس سوچ کے پیچھے مسلمان دشمنی اور ایک مسلمان اکثریتی ریاست کا تیا پانچہ کرنے کی خواہش ہے۔ بھارت میں آزاد تجزیہ نگاروں کی رائے یہ ہے کہ کشمیر کے بعد آسام پر ہاتھ صاف کرنے کے بعد مودی حکومت رام مندر کا مسئلہ اُٹھائے گی اور یوں مسلمان آبادی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا نیا بہانہ ہاتھ آجائے گا۔ مودی حکومت مسائل کو نہ ٹالنے اور پالنے کے نام پر بھارت میں مرکزیت کو فروغ دیا جارہا ہے۔ یہ انگاروں سے کھیلنے کا عمل ہے جس میں دامن، گریباں اور ہاتھ تک جلنے کا احتمال وامکان ہے۔ مودی جہاں ایک طرف خود کو ہندو آبادی کا ٹارزن بنا کر پیش کررہے ہیں وہیں بھارت کی معیشت کا جنازہ نکالنے کا ’’کارنامہ‘‘ بھی انجام دے رہے ہیں۔ مودی حکومت میں جی ڈی پی کی رفتار چھ سال سے کم تر سطح پر پہنچ چکی ہے۔ اسی پر پریانیکا گاندھی نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مودی نے معیشت کی حالت پنکچر کر دی ہے۔