الحمدللہ حج بیت اللہ کی ادائیگی مکمل ہوگئی، تمام حجاج کرام اللہ رب العزت کی رحمتوں اور برکتوں سے فیضیاب ہوئے۔ دنیا اور آخرت کی بھلائی اور فلاح کے لیے دعائیں مانگی گئیں۔ قبولیت کی اُمیدوں کے ساتھ حجاج کرام اپنے اپنے وطن لوٹنا شروع ہوگئے۔ حج افضل عبادت اور اسلام کا اہم رکن ہے جس کی ادائیگی ہر صاحب حیثیت اور صحت مند مسلمان پر فرض ہے۔ حج کا اجتماع جہاں لاکھوں مسلمانوں کا یک لباس ہو کر اللہ کی بندگی اور عبادت کا ایک منفرد اور پاکیزہ اجتماع ہے وہیں پر عالم اسلام سمیت پوری دنیا کے انسانوں کے لیے بھی غور و فکر اور دعوت کا ایک ایسا پیغام ہے کہ جس کو محض دیکھنا ہی کافی نہیں ہوگا بلکہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے۔
دنیا آخرت سے جدا نہیں اسی طرح سے زندگی بھی موت کے بغیر مکمل نہیں، ہر انسان کے عمل کی کھیتی دنیا ہی ہے، جب کہ آخرت اجر سمیٹنے کی جگہ ہے۔ لہٰذا حج میں جہاں احرام کے ساتھ بیت اللہ کا طواف اور میدان عرفات تک پہنچنا ضروری ہے، وہیں پر اس عظیم عبادت کے دوران اپنی دعائوں اور خطبہ حج میں اُن مسلمانوں کی یاد اور ذکر بھی ضروری ہے کہ جو کسی مشکل اور مصیبت کی وجہ سے ’’حج بیت اللہ‘‘ کو نہ پہنچ سکے یا یہ کہ اپنے اپنے وطن اور علاقوں میں کسی ظلم و درندگی کا شکار بنالیے گئے ہوں۔ غم زدہ اور پریشان حال مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی اور اظہار یکجہتی امام حج سمیت تمام حجاج کرام کی ذمے داری تھی کیوں کہ محسن انسانیت نبی اکرمؐ نے اُمت مسلمہ کو جسد واحد یعنی ایک جسم قرار دیا ہے۔ جس کے اگر ایک حصے میں تکلیف ہو تو پورا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا اور بے چین ہوجاتا ہے جب کہ قرآن کریم بھی مظلومین کی مدد کرنے کی سختی سے تلقین فرماتا ہے۔
ہمیں حیرت ہے کہ امسال میدان عرفات میں لاکھوں مسلمانوں کے سامنے ’’خطبہ حج‘‘ پڑھنے والے امام حج الشیخ محمد بن حسن نے یوں تو قرآن و سنت کی روشنی میں بہت کچھ فرمایا مگر اس دوران وہ یہ بھول گئے کہ دنیا کے ظالم اور مظلوم بھی امام صاحب کے خطبے کو بڑے غور سے سن رہے ہیں۔ باطل قوتیں اور ظالم کان لگائے ہوئے تھے کہ کہیں امام حج ہمارے خلاف تو کوئی بات نہیں کہہ رہے۔ جب کہ مظلوم اپنی ویران آنکھوں اور اداس چہروں سے امام حج کے خطبے کی طرف متوجہ تھے کہ امام صاحب ابھی اس جملے کے بعد اگلہ جملہ ہماری مدد اور داد رسی کے لیے کہیں گے۔ مگر جب ’’خطبہ حج‘‘ مکمل ہوا تو ظالم اور باطل قوتوں کو اطمینان ہوا کہ امام حج ہم پر ملامت کرنے اور نشاندہی کرنے سے قاصر رہے۔ مظلومین کی خشک آنکھوں میں پھر سے آنسو تیرنے لگے کہ امام صاحب نے ہماری مدد کرنے کے لیے نہ تو کسی مسلم حکمران کو کوئی حکم فرمایا اور نہ ہی ظالم و جارح کی مذمت کی، بلکہ امام حج تو یہاں تک مظلومین سے ناراض اور بیزار نظر آئے کہ ان کے لیے دعا تک نہ مانگی گئی، یہاں تک کہ تیسرا حرم بیت المقدس (مسجد اقصیٰ) کی آزادی اور بازیابی کے لیے بھی خطبہ حج میں ایک لفظ تک نہیں کہا گیا۔ روس شام میں، امریکا افغانستان میں، چین سنکیانگ میں، بھارت مقبوضہ کشمیر میں، اسرائیل فلسطین میں اور میانمر روہنگیا مسلمانوں کے خون کے ساتھ جو ہولی کھیل رہے ہیں اس پر ’’امام حج‘‘ کی خاموشی جہاں اللہ کے عذاب کو بھڑکانے اور ناراضی کو بڑھانے کے مترادف ہے وہیں پر یہ بات بھی ثابت ہوگئی ہے کہ اسلامی خلافت اور بادشاہت میں کیا فرق ہوتا ہے اور وہ یہ کہ بادشاہ کے مقرر کردہ امام کا خطبہ حق کی گواہی اور مظلوم کی مدد سے خالی ہوگا۔ یمن کے مسلمانوں پر ’’عرب اتحاد‘‘ کی بمباری بھی مسلمانوں کے لیے باعث تشویش ہے کہ مسلمان مسلمان کا خون بہا رہا ہے۔ اما حج کو یہاں بھی انصاف، درگزر اور رحم کی بات کرنی چاہیے تھی کہ مسلم حکمران اور مسلم فوجیں بھی احتیاط سے کام لیں اور غیر مسلموں کے نقش قدم پر نہ چلیں۔ مسلمان عوام کے ساتھ برداشت اور نرمی کا سلوک کیا جائے، تاہم یہاں بھی ایسا کچھ نہیں کہا گیا، لگتا ہے کہ سعودی بادشاہ شاہ سلیمان اور ان کے ولی عہد شہزادے محمد بن سلیمان نے اپنی بادشاہت کی حفاظت کو تمام مظلوم مسلمانوں پر ترجیح دی، اسی لیے سعودی بادشاہت کے غیر مسلم دوستوں اور اتحادیوں کو ’’خطبہ حج‘‘ کی زد میں آنے سے محفوظ رکھا گیا۔ بابری مسجد سے بیت المقدس تک اور مقبوضہ کشمیر سے فلسطین تک جارح اور ظالم کی مذمت میں ایک لفظ تک نہ کہنا یقینا سعودی بادشاہ، ولی عہد اور امام حج کا مشترکہ جرم ہے جس پر وہ اللہ کے سامنے جوابدہ ہوں گے۔ ہم سب کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت ہم سب کی مدد و رہنمائی فرمائے۔ آمین ثم آمین۔