نواب اکبر بگٹی اور مسئلہ کشمیر

1564

 

 

نواب محمد اکبر خان بگٹی کی 26 اگست 2019ء کو 13 ویں برسی تھی۔ 26 اگست 2006ء کو نواب اکبر بگٹی ڈیرہ بگٹی سے کچھ فاصلے پر پہاڑوں کے اندر ایک فوجی آپریشن میں قتل کردیے گئے۔ جنرل مشرف کا خیال تھا کہ نواب کو قتل کردینے کے بعد لوگ اُسے بھول جائیں گے اور بلوچستان پر اُن کی مرضی چلے گی مگر ایسا نہ ہوسکا۔ نواب کے قاتل کو شرمندہ ہونا پڑا، بلوچستان سمیت پورے پاکستان میں شدید غم اور افسوس کا اظہار کیا گیا اور نواب کو ’’شہید‘‘ کہا جانے لگا، جس کے بعد نواب کے قتل کے جرم کی زد میں آنے سے خود کو بچانے کے لیے نواب شہید کے نام پر ٹرین چلائی گئی، اسٹیڈیم کا نام رکھا گیا اور ان کے خاندان میں سیاسی رشوتیں بانٹی گئیں تا کہ نواب کے قاتلوں کو ’’دوست‘‘ سمجھا جائے۔
نواب اکبر خان بگٹی جرگے کا وہ رکن تھا جس نے بلوچستان کو پاکستان میں شامل کرنے کے حق میں ووٹ دیا، قائد اعظمؒ سے ہاتھ ملایا، پاکستان کا وزیر دفاع، بلوچستان کا وزیر اعلیٰ اور گورنر رہا، ایم این اے اور ایم پی اے بھی رہا۔ آرمی چیف جنرل اسلم بیگ سے ملنے کے لیے ’’جی ایچ کیو‘‘ بھی گیا، وقتاً فوقتاً جمہوری اور سیاسی قوتوں کے ساتھ ملتا اور تعاون کرتا رہا، انتہائی مایوس کن حالات میں بھی کبھی قومی دھارے سے باہر نہیں گیا، قوم پرستوں کے لیے کبھی استعمال نہیں ہوا، قوم پرستوں کو ہمیشہ ’’پیٹ پرست‘‘ کہا کرتا تھا۔ نواب نے بلوچستان کے حقوق اور وسائل کی بات ضرور کی مگر بلوچستان کی علیحدگی کی بات کبھی نہیں کی، جو بلوچ سردار علیحدگی کی بات کرتے تھے نواب ان سے دور رہا۔ نواب بگٹی بعض جرنیلی فیصلوں اور آپریشنوں پر تنقید ضرور کرتے تھے مگر وہ فوج کے خلاف ہرگز نہیں تھے۔ نواب بگٹی کے کسی بھی غیر ملکی خفیہ ایجنسی کے ساتھ قطعاً کوئی تعلقات نہ تھے، نواب خفیہ سازشوں کو ناپسند کرتے تھے اور وہ انتہائی کڑوی بات بھی مجلس میں سب کے سامنے کہہ دینے کے عادی تھے۔ نواب بگٹی جب بھی گورنر ہائوس یا وزیراعلیٰ ہائوس میں براجمان ہوئے تو انہوں نے بلوچستان کی بیوروکریسی کو میرٹ پر کام کرنے کی ہدایت کی۔ ان کے دفتر میں تعصب کی بنیاد پر تقرریاں نہیں ہوتی تھیں، وہ ملازم کو بلوچ، پٹھان اور پنجابی کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے، انہیں کام اور اہلیت پسند تھی، وہ کام کرنا اور لینا جانتے تھے، وہ بہت اچھے ایڈمنسٹریٹر تھے، نواب بگٹی بلوچستان میں پاکستان کی ضمانت اور اسلام آباد میں بلوچستان کی آواز تھے۔
نواب بگٹی کو محب وطن نہ کہنے والے اُسے مرنے کے بعد بھی غدار ثابت نہ کرسکے، جب کہ وقت نے ثابت کیا کہ نواب کا قاتل جنرل مشرف غدار اور بزدل تھا، کارگل کی جیتی ہوئی جنگ سے پسپائی غداری کے مترادف تھی، امریکی صدر بش کی ایک دھمکی پر برادر اسلامی اور پڑوسی ملک افغانستان پر امریکی و ناٹو فوج کو حملے میں مدد دینے کے لیے پاک سرزمین کے استعمال کی اجازت دینا، چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور دیگر جسٹس صاحبان کے خلاف کارروائی، قومی ہیرو ڈاکٹر قدیر خان کو امریکی دبائو پر بدنام کرنا اور زیر حراست رکھنا، لال مسجد آپریشن، نواب اکبر بگٹی، عبدالرشید غازی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں جنرل مشرف کے ملوث ہونے کے الزامات اور خبروں سے جنرل مشرف کی بہادری اور حب الوطنی مشکوک ہوجاتی ہے۔ جنرل مشرف اس قدر بے غیرت تھا کہ اُس نے ڈاکٹر عافیہ سمیت سیکڑوں پاکستانی شہریوں کو کسی عدالت میں مجرم ثابت کیے بغیر امریکا کو فروخت کردیا، جب کہ نواب بگٹی ایک غیرت مند سردار تھا جس نے سوئی کے اسپتال میں ایک خاتون ڈاکٹر کے ساتھ ایک حاضر سروس کیپٹن کی زیادتی کی خبر آنے کے ساتھ سخت ردعمل دیا اور کہا کہ کیپٹن کا کورٹ مارشل کیا جائے۔ یہیں سے نواب اور جنرل کے درمیان ٹکرائو شروع ہوا۔ نواب نے خاتون ڈاکٹر کے ساتھ زیادتی کو غیرت کا مسئلہ بنایا اور جنرل نے کیپٹن کے جرم کا دفاع کرتے ہوئے اُسے انا کا مسئلہ بنالیا۔ بالآخر نواب بگٹی نے قتل ہونا پسند کیا مگر ’’غیرت‘‘ پر سمجھوتا نہیں کیا، جب کہ جنرل مشرف نے اپنی بزدلی اور بے غیرتی برقرار رکھتے ہوئے افغانستان اور پاکستان کی کتنی عزتوں کو امریکیوں کے ہاتھوں بے آبرو اور کتنی جانوں کو قتل کروادیا۔ مگر حیرت ہے کہ یہ شخص پھر بھی زندہ اور آزاد ہے، پاکستان کی کوئی عدالت جنرل مشرف کو گرفتار نہ کرسکی اور وہ آج بھی دبئی اور یورپ کے کلبوں میں شراب پیتا اور ڈانس کرتا پھر رہا ہے۔
نواب بگٹی 82 سال کی عمر تک شان کے ساتھ زندہ رہا اور ایمان کے ساتھ مر گیا۔ تمام بلوچوں کی بہادری اور قربانیوں کی تاریخ کو اگر ایک پلڑے میں رکھا جائے تب بھی نواب کی شخصیت اور شہادت کا پلڑا بھاری رہے گا۔ نواب بگٹی کی شہادت کے بعد بلوچستان کا بحران مزید گمبھیر ہوگیا، تاہم بلوچستان کا پاکستان کے بغیر کوئی تصور نہیں اور نہ ہی پاکستان بلوچستان کے بغیر مکمل ہے۔ لہٰذا بلوچستان کا موجودہ بحران ہر صورت میں حل ہونا چاہیے۔ اس پر ہم کئی بار لکھ چکے ہیں اور آئندہ بھی لکھیں گے کیوں کہ ہمارے نزدیک بھی وقت گیا نہیں۔ تدبر، برداشت اور درگزر کے ساتھ ایسے فیصلے کرنے اور اقدامات اٹھانے کی گنجائش ہے جس کے بعد بلوچستان کو امن اور ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ ’’بااختیار‘‘ ضد کرنے کے بجائے توجہ سے کچھ سننے اور سمجھنے پر آمادہ ہوجاتیں۔
نواب بگٹی کے ساتھ ہمارے 25، 30 سال کے دوستانہ مراسم تھے۔ کوئٹہ کی بیٹھک سے ڈیرہ بگٹی کی کچری تک نواب صاحب کے ساتھ کتنی ہی نشستیں ہوئیں، تمام ملاقاتوں میں سیرحاصل بحث اور مفید تبادلہ خیال رہا۔ جن لوگوں نے نواب کو دور سے دیکھا اور محض ان کے تلخ و شریں بیانات پڑھے وہ نواب کو پوری طرح سمجھ نہ سکے، جب کہ ہم نے نواب بگٹی کو نہ صرف بہت قریب سے دیکھا بلکہ انتہائی اہم اور حساس موضوعات پر بھی کئی بار ٹٹولا۔ نواب بگٹی کسی بھی حوالے سے پاکستان کا دشمن نہ تھا وہ ہر حوالے سے پاکستان کا وفادار دوست تھا مگر افسوس کہ آج ہم اس ’’وفادار دوست‘‘ کی برسی منارہے ہیں۔ ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے اسے قتل کیا، اس کے بڑھاپے اور حب الوطنی کا کوئی خیال نہیں کیا۔ خاندان کو نماز جنازہ پڑھنے تک کی اجازت نہیں دی گئی، تابوت کو تالا لگا کر قبر میں اُتارا گیا اور چابی اپنے پاس رکھ لی۔ نواب کے گھر اور قلعہ کو لوٹ لیا گیا اور خاندان کو دربدر کردیا۔ وقت گزر گیا اور گزر رہا ہے، زندگی کو موت ضرور آئے گی تاہم تاریخ ہمیشہ زندہ رہے گی جو آئندہ آنے والی نسلوں تک کو آگاہ کرتی رہے گی۔ نواب بگٹی کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کا ذکر اور اُس پر تبصرے جاری رہیں گے، تاہم آج ہم نواب صاحب سے پوچھے جانے والے صرف ایک سوال کا جواب اپنے قارئین کو بتانا چاہئیں گے اور وہ یہ کہ تقریباً 20 برس قبل ہم نے ایک نشست میں نواب صاحب سے پوچھا کہ مسئلہ کشمیر کا حل کیا ہے، نواب صاحب نے بغیر کسی توقف کے کہا کہ ’’ایک ہی حل ہے دونوں ملک جنگ کریں جو جیت جائے کشمیر اُس کا‘‘۔ اُس وقت تو ہم اس جواب سے کم ہی مطمئن ہوئے اور سمجھے کہ شاید ایک بلوچ سردار خوامخواہ جنگ کی بات کررہا ہے، حالاں کہ مذاکرات، ثالثی، سفارتی چینلز، عالمی برادری، او آئی سی اور اقوام متحدہ کے آپریشنز ابھی باقی ہیں جنہیں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے مگر آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ نواب صاحب نے 20 برس پہلے ’’مسئلہ کشمیر‘‘ کا جو حل بتایا تھا، وہی حل ہے کوئی دوسرا آپشن یا حل نہیں۔
بھارت کے ساتھ جنگ کون کرے گا، کیا پاکستان کے حکمرانوں میں کوئی ’’نواب بگٹی‘‘ ہے یا یہ کہ جنرل نیازی کی تاریخ کو دہرایا جارہا ہے اگر ایسا نہیں ہے تو پھر بھارت کے ساتھ جنگ کرنے کے اقدامات اور ارادے نظر کیوں نہیں آرہے۔ یاد رہے کہ مقبوضہ کشمیر ریلیوں اور قراردادوں سے آزاد نہیں ہوگا جب تک کہ جنگ اور جہاد کے میدان گرم نہیں ہوں گے۔ ہم آخر میں اللہ رب العزت سے دعا کرتے ہیں کہ شہید نواب اکبر بگٹی اور شہدا کشمیر کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔