مخاصمت بھری مفاہمت؟

305

 

 

افغانستان میں برسرپیکار طالبان نے یہ اعلان کرکے دنیا کو حیرت زدہ کردیا تھاکہ امریکا کے ساتھ مذاکرات میں اٹھانوے فی صد اتفاق ہو گیا ہے۔ امریکا افغانستان سے مکمل انخلا اور ریاست کا نام امارت اسلامی افغانستان رکھنے پر قائل ہوگیا ہے۔ طالبان کے اس اعلان کی گونج ابھی فضاء میں ہی تھی کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی زہر میں بجھی اور گندھی گفتگو نے مکمل انخلا کی خبروں کا سارامزہ خراب کر کے رکھ دیا۔ امریکی ٹی وی چینل فاکس نیوز کے ساتھ انٹرویو میں ٹرمپ کا اصرار تھا کہ افغانستان سے مکمل انخلا نہیں کیا جا رہا بلکہ فوج کی تعداد کم کرکے آٹھ ہزار چھ سو کی جارہی ہے ہم اپنی موجودگی کو کم تو کریں گے مگر اسے ہمیشہ برقرار رکھیں گے۔ ٹرمپ کے اس بیان کے فوری ردعمل میں طالبان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ جب تک غیر ملکی فوجیں افغانستان سے چلی نہیں جاتیں امن کا قیام ممکن نہیں۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم اسی لیے مذاکرات کر رہے ہیں کہ غیر ملکی فوج افغانستان سے چلی جائے۔
امریکا اور طالبان کے ان مذاکرات میں افغان حکومت بارہواں کھلاڑی ہو کر رہ گئی ہے۔ وہ بارہویں کھلاڑی کی طرح مذاکرات کے ناکام ہوجانے کی دعائیں بھی مانگ رہی ہے اور اس کے لیے عملی اقدامات بھی کر رہی ہے تاکہ اس کی یہ حیثیت تبدیل ہوجائے اور وہ معاملات میں سرگرم کردار ادا کرسکے۔ افغان حکومت نے بھی اس ماحول میں اپنے وجود کا اظہار کرنے کا موقع ضائع نہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ کسی ایسے معاہدے کو ماننے کی پابند نہیں جس میں اس کی حیثیت کوتسلیم نہ کیا گیا ہو وہ معاہدے کے بعد اس پر غور کر کے کوئی رائے ظاہر کرے گی۔ اس دوران میں امریکی تھنک ٹینک سینٹر فار اسٹرٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز نے خدشہ ظاہر کیا کہ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال افغان امن معاہدے پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ ان خبروں کے دوران ہی میں طالبان نے قندوز سمیت کئی شہروں پر اپنا دبائو بڑھا دیا ہے گویا کہ وہ افغان حکومت کو مزید کمزور اور بے وقعت کرکے تھکا دینا چاہتے ہیں تاکہ مذاکرات پر اس کے اصرار کی گنجائش اور وزن کو کم سے کم کر دیا جائے۔
افغانستان کے افق پر طالبان کے بیان سے امن ومفاہمت کے جو آثار پیدا ہورہے تھے ان میں وقتی طور رکاوٹ پیدا ہوتی نظر آرہی ہے مگر یوں لگتا ہے کہ طالبان اور امریکا دونوں اب باہمی مفاہمت کا ذہن بنا چکے ہیں۔ طالبان امریکا کی کسی نہ کسی انداز سے افغانستان میں موجودگی کے قائل نظر آتے ہیں اور امریکی بھی طالبان کے اقتدار کو اب ڈراونا خواب سمجھنے کا رویہ ترک کر رہے ہیں۔ یہ قبول وایجاب ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے اور اس کے حقیقت میں ڈھلنے کی راہ میں ابھی بہت رکاوٹیں ہیں۔ بھارت اس میدان کا ایک اہم کھلاڑی ہے جس کے لیے کابل میں طالبان کی حکمرانی ماضی کی طرح آج بھی ایک خوفناک تصور ہے۔ جب بھی کابل میں انہیں طالبان کے راج کا تصور آتا ہے تو ان کی نگاہوں میں سری نگر سے تین حریت پسندوں کو جہاز میں ساتھ لے کر چلنے والے جسونت سنگھ کی قندھار ائرپورٹ پر جھکی جھکی نگاہیں اور بوجھل قدم جیسے ماضی کے مناظر گھومنے لگتے ہیں۔
طالبان افغانستان کی سب سے بڑی زمینی حقیقت ہو سکتے ہیں مگر واحد حقیقت نہیں۔ یہ بات طالبان کے اقتدار کے زمانے میں بھی ثابت ہو چکی ہے جب ان کے بڑھتے ہوئے قدم ایک مقام پر جا کر رک گئے تھے اور کابل پر ان کی حکمرانی کے باوجود افغانستان کا ایک بڑا حصہ شمالی اتحاد کے کنٹرول میں تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان امریکا کے لیے ’’گرم آلو‘‘ بن کر رہ گیا ہے منہ میں رکھتا ہے تو منہ جلتا ہے اور پھینکتا ہے تو کیسے؟۔ طالبان کی حد تک وہ اس آلو کو کچھ ضمانتوں کے بعد پھینک دینا چاہتا ہے۔ افغان آپس میں لڑتے مرتے ہیں اسے غرض نہیں مگر وہ یہ ضمانت لے چکا ہے کہ افغان سرزمین القاعدہ جیسی کسی تنظیم کے زیر اثر امریکا کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ چین، پاکستان اور ایران کی حد تک امریکا اس ملک میں اپنی موجودگی کا خواہش مند ہے۔ یہ امریکا کا وہی اسٹائل ہے جو سوویت یونین اپنا کر چلا گیا تھا اور اپنے پیچھے ایک جنگ زدہ منقسم اور وارلارڈز میں گھرا ملک چھوڑ گیا تھا۔ تخت کابل پر ڈاکٹر نجیب براجمان تھے تو باقی افغانستان میں مجاہدین کی سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ سوویت یونین کے ساتھ جنگ میں شاید وہ بربادی تو نہیں ہوئی تھی جو خانہ جنگی کے بعد ہوئی مگر سوویت یونین ایک خلا چھوڑ کر جا چکا تھا اور سب کے لیے قابل قبول معاہدہ ایک خوب ہی رہا۔ آج امریکا سوویت یونین کے انداز ہی میں افغانستان کو داخلی طور پر جوں کا توں چھوڑ کر جانا چاہتا ہے۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ کسی کو خبر نہیں۔ یہ ماضی کی غلطی دہرانے والی بات ہوگی۔ جنگ زدہ اور شورش زدہ افغانستان اپنے ہمسایوں بالخصوص پاکستان کے لیے بدستور دردِ سر ہی رہے گا کیونکہ پاکستان میں مہاجرین کی بڑی تعداد آباد ہے اور کسی نئی جنگ کی صورت میں نئے قافلے اس جانب رواں ہو سکتے ہیں۔ طالبان اور امریکا کے درمیان معاملات تو طے ہو سکتے ہیں مگر افغان حکومت اور طالبان کو ساتھ بیٹھانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ طالبان افغانستان کی اصل طاقت امریکا کو سمجھتے تھے اور کابل حکومت ان کے نزدیک قابض فوج کی پرچھائی تھی۔ طالبان کے اس جمے جمائے تصور کو تبدیل کرانا آسان نہیں۔ یوں افغانستان میں فوری طور پر جس مفاہمت کے آثار دکھائی دیتے ہیں وہ انتشار و تفریق سے لبریز ہے۔