فارماٹیک کے محنت کشوں نے چیف جسٹس کو گزشتہ دنوں خط لکھا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ہم فارماٹیک پاکستان D-86-A سائٹ کراچی ملازم ہیں ہم نے جون 2017ء میں فارماٹیک ورکرز ویلفیئر یونین میں شمولیت اختیار کی تو فارماٹیک انتظامیہ نے ہمیں جولائی 2007ء میں نوکری سے برطرف کردیا۔ ہم نے اس برطرفی کے خلاف اگست 2007 میں لیبر کورٹ نمبر 3 کراچی میں بحالی کے لیے کیس دائر کیے لیبر کورٹ نے 29-04-2010 کو ہمیں بغیر بیک بینی فٹ کے ڈیوٹی پر بحال کیا مگر فارماٹیک انتظامیہ نے اس آرڈر کے خلاف لیبر اپیلٹ ٹریبونل میں اپیل دائر کی اور ہم نے بیک بینی فٹ کے لیے معزز عدالت میں اپیل کی۔ معزز عدالت لیبر اپیلٹ ٹریبونل نے 19-12-2013 کو ہمیں فل بیک بینی فٹ کے ساتھ ڈیوٹی پر بحال کردیا۔ فارماٹیک انتظامیہ نے ایک بار پھر معزز عدالت کے فیصلہ کو من و عن ماننے سے انکار کیا اور جنوری 2014ء کو سندھ ہائی کورٹ میں CP 275 To 281/14 دائر کی۔ ہم لیبر اپیلٹ ٹریبونل کے فیصلہ کے مطابق روزانہ ڈیوٹی پر آرہے تھے مگر کمپنی نے ہمیں ڈیوٹی پر نہیں رکھا اور نہ ہی بیک بینی فٹ دیے بلکہ 26-12-2013 ہمیں ایک لیٹر دیا کہ کمپنی آپ کو تنخواہ دیتی رہے گی مگر آپ سے ڈیوٹی نہیں لیں گے جب تک ہائی کورٹ اس کیس کا فیصلہ نہیں کرتی۔ انتظامیہ اپنی ہٹ دھرمی کو برقرار رکھتے ہوئے ہماری اصل تنخواہ کے بجائے منیمم ویجز دیتی رہی اور بیک بینی فٹ نہیں دیا، اس کے باوجود ہم معزز عدالت سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرتے رہے اور کئی بار انتظامیہ کو CBA یونین کے ذریعے پیغام پہنچایا کہ ہم تنازعات نہیں صنعتی امن چاہتے ہیں، آپ مہربانی فرما کر معزز عدالتوں کے فیصلوں کو تسلیم کریں مگر افسوس صد افسوس کہ نہ تو معزز عدالت سندھ ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا اور نہ ہی کمپنی انتظامیہ لیبر کورٹ اور لیبر اپیلٹ ٹریبونل کے فیصلوں کو ماننے کے لیے تیار تھی۔
مجبوراً ہم نے 2018ء کو لیبر کورٹ نمبر 3 کراچی میں بیک بینی فٹ کی ریکوری کے لیے کیس دائر کیے اور اسی سال لیبر کورٹ نمبر 3 کراچی میں کرمنل کیس بھی دائر کیے لیکن لیبر کورٹ میں جج صاحب کی غیر موجودگی کی وجہ سے ابھی تک اس میں نوٹس بھی نہیں ہوا۔ اس کے بعد فارماٹیک انتظامیہ نے 11-02-2019 کو ہمیں (ری ٹرینچمنٹ) کا لیٹر بذریعہ رجسٹری بھیجا اور اس لیٹر میں یہ موقف اختیار کیا کہ ہم نے جونیئر ٹیکنیکل آفیسر کی پوسٹ ختم کردی ہے۔ حالانکہ لیبر کورٹ نمبر 3 کراچی نے 29-04-2010 کو اپنے فیصلے میں یہ تسلیم کرلیا ہے کہ ہم پروڈکشن ٹیکنیشن ہیں اس کے باوجود انتظامیہ جو ہمیں منیمم ویجز دے رہی تھی وہ بھی بند کردیے اور اپنے ہی لیٹر مورخہ 26-12-2013 کی نفی کی ۔
ہم نے کمپنی کے اس لیٹر کو ان کی 281/14، CP275 میں ایک درخواست کے ساتھ چیلنج کیا۔ ہمیں بہت دُکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم غریبوں کے لیے ہائی کورٹ کے پاس وقت نہیں ہے جو ہماری فریاد سنے اور ابھی تک کیس کا فیصلہ نہیں ہورہا۔ اب وکیل ہمیں کہہ رہے ہیں کہ فارماٹیک کمپنی کے (ری ٹرینچمنٹ) کے اس لیٹر پر گروینس نوٹس دینا پڑے گا اور ازسرِنو NIRC بینچ کراچی سے اس کیس کو شروع کرنا پڑے گا۔ ہمیں تقریباً 13 سال کے بعد بھی معزز عدلاتوں سے انصاف نہیں ملا اور اگر ملا بھی تو یہ سرمایہ دار اس کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ خدارا ہمارے حال پر رحم فرما کر سندھ ہائی کورٹ میں زیر سماعت 281/14، CP275 اور اس لیٹر کا میرٹ کی بنیاد پر انسانی حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے جلد از جلد نمٹائے جائیں ورنہ اس طرح تو ہماری زندگیاں ختم ہوجائیں گی اور فیصلہ نہیں ہوگا۔ ہم اس طویل سسٹم سے مایوس ہوچکے ہیں، اب ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ہم غریب لوگ ہیں نہ تو اپنے بچوں کو بہتر تعلیم دے سکتے ہیں اور نہ ہی اچھا علاج کرواسکتے ہیں اور نہ ہی ہم غریب لوگ وکیلوں کی بھاری فیسوں کی سکت نہیں رکھتے۔