مغرب نے اپنے متبادل کے خیال کو تقریباً فنا کردیا ہے۔ معاشی نظام ہے تو مغرب کا، سیاسی نظام ہے تو مغرب کا، علم ہے تو مغرب کا، عقل ہے تو مغرب کی۔ یہاں تک کہ مغرب نے طب، موسیقی اور اشیائے خوردونوش میں بھی اپنے متبادل کو یا تو ٹھکانے لگادیا ہے یا اس کو توقیر اور ساکھ کا حامل نہیں رہنے دیا۔ ہندوستان پانچ ہزار سال سے اپنی کلاسیکی موسیقی پر فخر کررہا تھا۔ مگر مغربی موسیقی نے ہندوستان کی کلاسیکل موسیقی کا ہندوستان میں گھس کر گلا گھونٹ دیا ہے۔ کھانے پینے کا تعلق ذائقے سے ہوتا ہے اور ذائقے کا بدلنا آسان نہیں ہوتا مگر کوکا کولا، چپس، برگر اور پیزا نے مقامی مشروبات اور کھانوں کو ’’دوسرے درجے‘‘ کا بنادیا ہے۔ بلاشبہ لوگ اب بھی حکیموں اور ہومیوپیتھک ڈاکٹروں سے استفادہ کرتے ہیں مگر علاج کے ان طریقوں پر ’’اعتبار‘‘ کم ہی لوگ کرتے ہیں۔ یہی قصہ مغرب کی جمہوریت کا ہے۔ مغرب کی جمہوریت اس طرح عالمگیر فیشن بنی ہے کہ جمہوریت سے ہٹ کر سوچنا ’’سیاسی کفر‘‘ بن گیا ہے۔ دنیا میں ایسے کروڑوں لوگ ہیں جنہوں نے ایک سے زیادہ خدا ایجاد کر رکھے ہیں مگر یہ لوگ جمہوریت کے ساتھ ’’شرک‘‘ کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی سیاسی نظام جمہوریت کے ہم پلہ ہو۔ حد یہ ہے کہ لوگ جمہوریت کو تنقیدی نظر سے دیکھنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے۔ انہیں لگتا ہے کہ جمہوریت پر تنقید کی تو وہ احمق اور فاتر العقل لگیں گے اور اپنے عہد سے ہم آہنگ نہیں رہیں گے۔ انسان عہد جدید میں سانس لے رہا ہو اور ’’جدید‘‘ نظر نہ آئے تو اس کا ’’انسان‘‘ ہونا ہی مشتبہ ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے کوئی جمہوریت پر تنقید کی اتنی بڑی قیمت چکانے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ اسلام کا اصول ہے کہ حالتِ اضطر ا میں مردار بھی کھایا جاسکتا ہے مگر ’’مجبوری‘‘ اور آزادی کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے۔ مسلمان صرف جان کے زیاں سے بچنے کے لیے مردار کھا سکتا ہے مگر وہ اس حالت میں بھی پیٹ بھر کر اور سیر ہو کر نہیں کھائے گا۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ وہ ’’مجبوری‘‘ کو عمومی نہیں بنائے گا اسے Generalize نہیں کرے گا۔ وہ یہ نہیں کہے گا کہ مجبوری کے اصول کا اطلاق عام حالت پر بھی کیا جاسکتا ہے۔ چناں چہ جمہوریت اگر ہماری مجبوری ہے تو ہمیں اسے مجبوری کے درجے میں رکھنا چاہیے، اسے دل کی ملکہ اور سر کا تاج نہیں بنانا چاہیے۔ اقبال ہماری عظیم ترین شخصیات میں سے ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری میں جمہوریت کے پرخچے اُڑا دیے ہیں مگر اپنے خطبات میں انہوں نے ’’روحانی جمہوریت‘‘ کی اصطلاح وضع کی ہے۔ یہ اصطلاح بھٹو کی ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کی اصطلاح کی طرح ہے۔ جس طرح اسلام میں سوشلزم اور سوشلزم میں اسلام نہیں تھا اسی طرح روحانیت میں کوئی جمہوریت اور جمہوریت میں کوئی روحانیت نہیں ہے۔
ساری دنیا جانتی ہے کہ جدید مغرب اپنا فکری سلسلہ نسب یونان سے وابستہ کرتا ہے۔ مغرب کی ہر چیز یونان سے آئی ہے۔ مغرب کا فلسفہ، مغرب کا آرٹ، مغرب کا ڈراما۔ یہاں تک کہ جمہوریت کو بھی مغرب یونان کی عطا سمجھتا ہے۔
انگریزی لفظ Democracy یونانی زبان کے دو الفاظ Demos اور Cracy کا ملغوبہ ہے۔ لفظ Demos کا مطلب عوام اور لفظ Cracy کا مفہوم حکومت ہے۔ چناں چہ جمہوریت کا عام مطلب ہے عوامی حکومت۔ لیکن یونان کے دو عظیم ترین فلسفیوں سقراط اور ارسطو کا خیال تھا کہ جمہوریت ایسا ’’عوامی رہنما‘‘ پیدا کرتی ہے جو عوام کے جذبات و تعصبات سے کھیل کر مقبولیت حاصل کرتا ہے۔ اس کا دوسرا بڑا عیب یہ ہوتا ہے کہ اسے حکومت کرنے کے فن سے واقفیت نہیں ہوتی۔ یعنی جمہوری یا عوامی رہنما ’’نارمل‘‘ ہوتے ہیں۔ افلاطون کی تاریخ ساز تصنیف مکالمات افلاطون میں سقراط کو یہ کہتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ اگر آپ بحری سفر پر روانہ ہورہے ہیں تو آپ اپنے بحری جہاز کا ناخدا ایسے شخص کو بنائیں گے جو جہاز اور بحری سفر کے بارے میں کچھ نہ جانتا ہو یا آپ اپنے جہاز کو چلانے کی ذمے داری ایسے شخص کے سپرد کریں گے جو ناخدائی کے فن سے بخوبی آگاہ ہوگا؟ سقراط کو اس سوال کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ بحری جہاز کو چلانے کی ذمے داری ایسے شخص کو دی جائے گی جو بحری جہاز اور بحری سفر کے بارے میں مہارت رکھتا ہو۔ یہ جواب سن کر سقراط کہتا ہے کہ تم لوگ یہ کیوں کہتے ہو کہ کسی بھی بوڑھے شخص کو جج یا ملک کا حکمران بنادو۔ سقراط کہتا ہے کہ ووٹ ڈالنے کا عمل ایک ’’ہنر‘‘ ہے۔ کسی کو قیاس یا الہام سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کس کو ووٹ دے۔ ووٹ دینے کی اہلیت کے لیے تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے اور تعلیم و تربیت کے بغیر ووٹ ڈالنے کی اجازت دینا انتہائی غیر ذمے داری کی بات ہے۔ اگر آپ کسی نااہل یا غیر ذمے دار شخص کو اپنا بحری جہاز چلانے کے لیے دیں گے تو وہ اسے طوفان میں پھنسا دے گا۔ سقراط کے نزدیک جن لوگوں کے پاس علم اور عقل ہو صرف انہی کو ووٹ دینے کا اختیار ہونا چاہیے۔ ارسطو کے خیالات بھی سقراط سے مختلف نہیں تھے۔ اس کے نزدیک حکومت صرف ’’اہل لوگوں‘‘ کا کام ہے اور حکومت کا مطلب ہی ’’بہترین لوگوں‘‘ کی حکومت ہے۔ اس نے اس سلسلے میں یہ تک کہہ دیا ہے کہ بہترین بادشاہت بدترین جمہوریت سے بہتر ہے۔ رہ گیا خود افلاطون تو اس نے صاف کہا ہے کہ سیاست اور حکومت کے مسئلے کا ایک ہی حل ہے۔ وہ یہ کہ یا تو حکمران کو فلسفی بنادو یا فلسفی کو حکمران۔ کسی کو غلط فہمی نہ ہو اس لیے عرض ہے کہ افلاطون کے زمانے میں فلسفہ بجائے خود حکمت، Wisdon یا دانش نہیں تھا بلکہ وہ حکمت، Wisdom یا دانش کی محبت کا نام تھا۔ یعنی اس زمانے کی روحانی یا مابعد الطبیعاتی بنیاد بھی تھی۔ اس زمانے میں فلسفہ جدید فلسفے کی طرح بے نسب یا کم نسب نہیں تھا۔
بعض لاعلم لوگ سقراط، افلاطون اور ارسطو کو محض تین افراد خیال کرسکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی خدمت میں عرض ہے کہ انسانی تاریخ پر پیغمبروں اور ان کے وارثین کے بعد جن لوگوں کا سب سے زیادہ اثر پڑا ہے ان میں سقراط، افلاطون اور ارسطو کے خیالات غیر معمولی اہمیت اختیار کرجاتے ہیں۔ اب ذرا ان خیالات کی روشنی میں مغربی جمہوریت اور اس کے نتائج کو ملاحظہ کیجیے۔ سقراط، افلاطون اور ارسطو صرف ایسے طرز حکمرانی کو قبول کرتے ہیں جو علمی، اخلاقی اور تکنیکی اہلیت پر کھڑا ہوا ہو۔ بدقسمتی سے جمہوری رہنمائوں اور جمہوری حکمرانوں کی عظیم ترین اکثریت ان تینوں اہلیتوں سے عاری ہے۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ دنیا کی سب سے مضبوط جمہوریت امریکا کے صدر ہیں مگر نہ ان میں کوئی علمی اہلیت ہے نہ ان کی کوئی اخلاقیات ہے اور نہ ہی وہ حکومت چلانے کا کوئی تکنیکی تجربہ رکھتے ہیں۔ بھارت میں مودی اور پاکستان میں نواز شریف، بے نظیر، آصف زرداری، الطاف حسین اور عمران خان کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ان مثالوں سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ جمہوریت نے صرف حال ہی میں ’’سیاسی شیاطین‘‘ پیدا کیے ہیں۔ مارکل مان نے اپنی معرکہ آراء تصنیف Dark Side of the Democracy میں لکھا ہے کہ یورپ کے سفید فام جمہوریت پسندوں نے امریکا پر قبضہ کرنے کے لیے 8 سے 10 کروڑ ریڈ انڈینز اور دیگر مقامی باشندوں کو مار ڈالا۔ آسٹریلیا میں سفید فام ڈیموکریٹس نے 45 لاکھ ایب اوریجنلز کو مارکر آسٹریلیا پر قبضہ کیا۔ یورپی اقوام کے جمہوریت پسندوں نے 18 ویں صدی میں کم و بیش پوری دنیا کو غلام بنا کر اس کے وسائل لوٹے۔ بھارت کی ممتاز محقق اُتسا پٹناٹک کی تحقیق کے مطابق برطانیہ کے جمہوریت پسندوں نے صرف ہندوستان سے
45 ارب پائونڈ کی لوٹ مار کی۔ یہ رقم اتنی بڑی ہے کہ پاکستان ڈیڑھ سو سال تک اس رقم سے اپنا بجٹ بنا سکتا ہے۔ یہ مغرب کے جمہوریت پسند ہی تھے جنہوں نے 20 ویں صدی کے ابتدائی پچاس برسوں میں دو عالمی جنگیں ’’ایجاد‘‘ کیں۔ ان جنگوں میں ’’صرف‘‘ 10 کروڑ لوگ مارے گئے۔ یہ مغرب کے ڈیموکریٹس ہی ہیں جو آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے ذریعے غریب اور کمزور اقوام کی معیشتوں پر قبضہ کیے ہوئے ہیں۔ یہ مغرب کے ’’جمہوریت باز‘‘ ہی ہیں جنہوں نے عراق اور افغانستان کے خلاف جارحیتیں تخلیق کرکے وہاں 6 سے 8 لاکھ مسلمانوں کو مار ڈالا۔ مگر اس کے باوجود بھی مغرب کی جمہوریت ’’عزت مآب‘‘ ہے۔ ’’عفت مآب‘‘ ہے۔ ’’روشن خیال‘‘ ہے۔ ’’جدید‘‘ ہے۔ ’’روحِ عصر‘‘ ہے۔
ایک سامنے کی بات ہے کہ اگر کسی نوجوان کو موٹر سائیکل چلانی نہ آتی ہو تو والدین اسے موٹر سائیکل لے کر سڑک پر نہیں نکلنے دیتے۔ اس لیے کہ اناڑی شخص خود کو بھی ہلاکت میں ڈال سکتا ہے اور کسی پر بھی موٹر سائیکل چڑھا سکتا ہے، مگر چوں کہ جمہوریت مغرب سے آئی ہے اور چار دانگ عالم میں اس کے حق میں پروپیگنڈا ہورہا ہے اس لیے لوگوں کی اکثریت ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں حکومت پکڑا دیتی ہے جنہیں حکومت کی الف ب بھی نہیں آتی۔ فی زمانہ بادشاہت کو گالی بنادیا گیا ہے مگر مغرب کے معلم اوّل ارسطو کے نزدیک اچھی بادشاہت بُری جمہوریت سے بہتر ہے۔ بلاشبہ تاریخ میں بہت بُرے بادشاہ ہوئے ہیں مگر تاریخ میں برے جمہوری رہنمائوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ تباہی بادشاہ کے ہاتھ سے ہو یا جمہوری رہنما کے ہاتھ سے تباہی تباہی ہوتی ہے مگر جمہوریت ہٹلر، جارج بش، ٹرمپ اور مودی جیسے شیاطین بھی پیدا کردے تو اسے کوئی بُرا نہیں کہتا۔ مگر سوال یہ ہے کہ آخر جمہوریت ہٹلر، ٹرمپ اور مودی پیدا ہی کیوں کرتی ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ نااہلیت اور شیطنت جمہوریت کے ڈی این اے میں ہے۔ جمہوریت مقدار اور تعداد پر یقین رکھتی ہے معیار پر نہیں۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر جمہوریت سقراط، افلاطون اور ارسطو کے لیے قابل قبول نہیں تو اس اسلامی معاشرے کے لیے کیسے قابل قبول ہوگی جس کے DNA ہی میں علمی، اخلاقی اور تکنیکی اہلیت کے ساتھ ساتھ روحانی اہلیت کا تصور بھی موجود ہو۔ جس کا نمونہ عہد رسالت اور خلافت راشدہ ہو۔