روداد سفر اور جماعت اسلامی پاکستان کا اجتماع عام ۱۹۵۷ء(باب دہم)

370

 

 

ایوب خان صدر مملکت تو بن گئے تھے‘ لیکن اتنا غیر ذمے دارانہ اور جھوٹی اطلاع پر مبنی بیان بغیر تصدیق کے دے دیا۔ جبکہ جماعت کی مجلس شوریٰ کا انتخاب باقاعدگی سے اور جماعت کے منظور شدہ دستور کے مطابق ۱۹۴۱ء سے باقاعدگی سے ہوتا رہا ہے۔ اس سال بھی یہ انتخاب نومبر ۱۹۶۲ء میں منعقد ہوا تھا۔ لیکن صدر ایوب نے اپنے کسی غیر ذمے دارسرکاری کارندے کی بالکل غلط اطلاع پر یقین کرلیا‘ اور اپنی کم علمی سے اخباری دنیا کو بھی واقف ہونے کا موقع فراہم کردیا‘ جس سے ان کی جگ ہنسائی کا موقع مل گیا۔
۲) دسمبر ۱۹۶۲ء میںمولانا مودودیؒ مکہ کانفرنس میں شرکت کے لیے عازم سعودی عرب ہوئے تو حکومت نے غیر قانونی قدم اٹھا تے ہوئے انہیں زرمبادلہ فراہم کرنے سے انکار کردیا‘ جس کی وجہ سے انہیں دوران سفر سخت مالی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے سخت تکلیفیں برداشت کرلیں لیکن سعودی حکومت کے سامنے کوئی اظہار نہیں کیا کہ ان کے پاس زاد راہ نہیں ہے۔ کیوںکہ یہ بات پاکستان کے وقار اور ان کی عزت نفس کے منافی تھی۔
۲۶؍ تا ۲۹؍ دسمبر ۱۹۶۲ء کو نومنتخب مجلس شوریٰ کا پہلا اجلاس لاہور میں ہوا‘ جس سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت مولانا مودودیؒ نے فرمایا: ’’پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کی راہ میں اس وقت سب سے بڑی اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ آمریت ہے‘‘۔ مولانا نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا :’’اس ملک میں اگر اسلام قائم ہوسکتا ہے تو صرف اور صرف جمہوریت کے راستے سے۔‘‘
مجلس شوریٰ نے ایک قرارداد کی منظوری کا اعلان کرتے ہوئے اسلام اور جمہوریت کے لیے متحدہ جدوجہد کا عزم ظاہر کرتے ہوئے ایک قرارداد منظور کی کہ پاکستان میں جمہوریت، اسلامی نظام کے قیام کا واحد راستہ اور آمریت اس راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ پورے ملک کی متحدہ جدوجہد کے بغیر اس آمریت کی گرفت سے نکلنا اور جمہوریت کا بحال ہونا ممکن نہیں ہے۔ مجلس شوریٰ نے اس سلسلے میں دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر متفقہ اور متحدہ جدوجہد کرنے کا اختیار امیر جماعت کو دے دیا۔
۲۳؍ جنوری ۱۹۶۳ء کو وزیر خارجہ محمد علی بوگرہ کا انتقال ہوگیا۔ ان کی جگہ ایوب خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو وزیرخارجہ مقرر کیا۔ مارچ میں صدر ایوب خان نے بدنام زمانہ نیا پریس آرڈیننس جاری کیا‘ جس کی رو سے ہڑتالوں اور مزدوروں کی بے چینی کی خبروں کی اشاعت پر پابندی عائد کردی گئی۔ ستمبر میں ایک اور آرڈیننس جاری کیا‘ جس کے تحت اسمبلی کی کارروائی بغیر اجازت شائع کرنے پر پابندی لگادی گئی۔ جنوری ۱۹۶۳ء کے آخر میں مجوزہ قومی جمہوری محاذ(NDF) کا اجلاس ہوا‘ جس میں جماعت اسلامی سمیت چھ سیاسی جماعتوں کے ۲۵ نمائندے شریک تھے۔ اس میں ایک مشترکہ قراردا دمنظور کی گئی کہ اسلام پر ملکی سیاست کی بنیاد ہے‘ اس لیے آئین میں پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دینا چاہیے اور تمام موجودہ قوانین کو اسلام کے مطابق ڈھالنا چاہیے۔ مجوزہ جمہوری محاذ کی تشکیل کے لیے ایک ذیلی کمیٹی مقرر کی گئی جس میں جماعت اسلامی کی طرف سے قیمّ میاں طفیل محمد اور چودھری غلام محمد امیر جماعت اسلامی کراچی شامل کیے گئے۔
(جاری ہے)