(روداد سفر اور جماعت اسلامی پاکستان کا اجتماع عام ۱۹۵۷ء(باب دہم

538

مجلس شوریٰ کے مطالبات
اس کے بعد مجلس شوریٰ نے اتفاق رائے سے ایک قرارداد منظور کی جس میں اس نام نہاد اسلامی مشاورتی کونسل پر عدم اعتماد کاا ظہار کیا گیا (جسے ۳۰؍ جولائی ۱۹۶۲ء کو مرکزی حکومت نے اسلامی قوانین کی تشکیل ومشاورت کے لیے مقرر کیا تھا۔ اس آٹھ رکنی اسلامی مشاورتی کونسل میں بمشکل دو تین کے سوا‘ باقی ارکان کا اسلام کے علم وفہم سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔)
یہ مطالبات کیے گئے کہ ۱۹۵۶ء کے دستور میں شامل تمام بنیادی حقوق کو بحال‘ قرارداد مقاصد کی حذف شدہ شق کو بحال اور ملک میں بالغ رائے دہی کے ذریعے براہ راست انتخابات کرائے جائیں۔ مملکت پاکستان کا نام حسب سابق اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا جائے۔ ۱۹۶۲ء کے آمرانہ دستور کے بارے میں مجلس شوریٰ نے کہا کہ اس دستور میں انتظامیہ کے جملہ اختیارات صدر کو سونپے گئے ہیں اور مقننہ کو دخل دینے کا کوئی راستہ نہیں دیا گیا ہے۔ موجودہ حالات میں اسے برداشت کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔سردست نئے دستور کی کوشش بے سود ہوگی‘ کیوںکہ اس سے ملک میں جمہوریت کے رہے سہے امکانات بھی ختم ہوجائیں گے۔ اس لیے مجلس اس حتمی رائے پر پہنچی ہے کہ اس دستور کو بتدریج تبدیل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے( تفصیلات کے لیے دیکھئے ’ایشیا‘ لاہور ۲۹؍ اگست ۱۹۶۲ء اور ۳؍ ستمبر ۱۹۶۳ء)
جماعت اسلامی کا پہلا جلسہ عام
۵؍ ستمبر ۱۹۶۲ء کو رات کے سوا نو بجے جماعت اسلامی لاہور کے زیر اہتمام بیرون موچی دروازہ ایک جلسہ عام ہوا۔۴۷ ماہ بعد جماعت اسلامی کا یہ پہلا جلسہ عام تھا۔ جلسے کی صدارت نصر اللہ خاں عزیز نے کی۔ امیر جماعت اسلامی مولانا مودودیؒ نے دوگھنٹے کی ایک طویل‘ دل پذیر اور موثر تقریر کی۔ مولانا نے قومی سیرت و کردار کے زوال کی تفصیل بیان کرنے کے بعد متنبہ کیا کہ اس صورت حال کی اصلاح کی فکر نہ کی گئی تو یہ عذاب الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔
مولانا مودودیؒ کا مجوزہ آئینی خاکہ
ایک اخباری کانفرنس میں مولانا مودودی نے اخباری نمائندوں کو ایک تحریری بیان میں یہ تجویز پیش کی کہ: اگر ۱۹۶۲ء کے دستور میں چند بنیادی ترمیمیں کردی جائیں تو صدارتی نظام بھی قائم رہ سکتا ہے اور جمہوریت کے وہ سارے مقاصد بھی پورے ہوسکتے ہیں جنہیں لوگ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان ترامیم کا تعلق قانون سازی کے اصولوں‘ شہری آزادی‘ بنیادی حقوق کے تحفظ‘ امتناعی نظر بندی‘ مسودات قانون کی صدر مملکت سے توثیق‘ صدر کے اختیارات‘ قومی اسمبلی کے دائرہ کار‘ انتخابی اداروں کی تشکیل اور صدر کے انتخاب کے طریقہ کار سے تھا۔
ستمبر ۱۹۶۳ء کے آخر میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کے مابین ایک متحدہ محاذ قائم کرنے کے بارے میں ایک اجلاس ہوا۔ اس وقت حسین شہید سہروردی جنہیں مارشل لاء کے اوائل میں گرفتار کیا گیا تھا رہا ہوچکے تھے۔ وہ اور مشرقی او رمغربی پاکستان کی اہم سیاسی شخصیات ان مذاکرات میں شریک ہوئے۔ سہروردی‘ ایوب خان کے۱۹۶۲ء کے آئین کی مکمل تنسیخ چاہتے تھے لیکن مولانا مودودیؒ کو اس تجویز سے اتفاق نہ تھا کیوںکہ ان کے نزدیک یہ جمہوریت کے لیے اور بعد میں ملک کے لیے بہت تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔
۲۴؍ نومبر ۱۹۶۲ء کے’ ایشیا‘ میں مولانا مودودیؒ کا ایک انٹرویو چھپا‘ جس میں انہوں نے اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ اگر ان ترامیم کے مطابق آئین میں تبدیلی کرلی جائے تو پھر متحدہ محاذ بنانے کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل کوئی حکومت اس وقت تک مفید ثابت نہیں ہوسکتی‘ جب تک کہ تمام اندرونی اور بیرونی مسائل کے بارے میں ایک متفقہ پالیسی مرتب نہ کرلی جائے۔ محض ہنگامی واقعات کی بنیاد پر کسی ایسی حکومت کی تشکیل فائدہ مند ثابت نہیں ہوگی۔
۱۷؍ دسمبر ۱۹۶۲ء کو سہ روزہ’ ایشیا‘ میں مولانا مودودیؒ کا ایک اور انٹرویو چھپا‘ جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ مارشل لا کے دور میں مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک کو بڑی تقویت پہنچی ہے۔
جماعت اسلامی سے ایوب حکومت کی محاذ آرائی
۱) ایوب خان نے جماعت اسلامی کے خلاف پہلا محاذ خود کھولا۔ انہوں نے کوئٹہ میں اخباری نمائندوں سے کہا:
’’انتخابات کرائے بغیر جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کا اعلان کردیا گیا۔ یہ لوگ خود جمہوری اقدار کو ملیا میٹ کررہے ہیں اور انتہائی آمرانہ طریق سے کام کررہے ہیں۔ عوام کو ایسے لوگوں سے خبردار رہنا چاہئے‘‘۔